جموں وکشمیر حکومت اگرچہ عسکریت پسندوں کے ذریعہ ہلاک ہوئے جوانوں کے کُنبوں کی باز آبادکاری کا کام انجام دیتی رہی ہے۔ تاہم کُچھ ایسے بھی متاثر کُنبے ہیں، جو کہ سرکار اور انتظامیہ کی اسکیموں کے فوائد سے محروم ہیں۔
ایسا ہی ایک کُنبہ ضلع پلوامہ کا رہنے والا سی آرپی ایف جوان نصیر احمد کا ہے۔ عسکریت پسندوں نے نصیر احمد کو ہلاک کر دیا تھا لیکن ان کی ہلاکت کے بعد حکومت نے نصیر احمد کے کُنبے کی فریاد کے باوجود کوئی توجہ نہیں دی۔
ضلع پلوامہ کے نائرا (Naira) گاؤں کے رہنے والے نصیر احمد راتھر سنہ 2006 میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس یعنی سی آر پی ایف میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوئے تھے۔
مختلف ریاستوں میں اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے بعد سنہ 2016 میں نصیر کی تعیناتی پلوامہ میں ہوئی تھی۔ 29 جولائی سنہ 2018 میں عسکریت پسندوں نے نصیر احمد کو اُس کے گھر سے اغوا کیا اور انہیں گولی مارکر ہلاک کردیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک نصیر کا کُنبہ اس غم سے نہیں اُبر سکا ہے۔
نصیر احمد کی کمائی سے ہی پورا گھر چلتا تھا۔ نصیر احمد کے والد 70 سالہ ولی محمد راتھر آج بھی اپنے بیٹے کی جُدائی کے غم میں ڈوبے رہتے ہیں۔
ولی محمد کا کہنا ہے کہ' نصیر احمد کے معصوم بچوں کو دیکھ کر وہ بے حد پریشان رہتے ہیں۔ نصیر احمد کے اہل خانہ میں ان کے بوڑھے والدین کے علاوہ بیوہ اور دو معصوم بچے ہیں'۔
نصیر احمد کے بوڑھے والدین نے جموں کشمیر انتظامیہ سے التجا کی تھی کہ اُس کی بیوہ کو سول انتظامیہ میں نوکری فراہم کی جائے، لیکن آج تک جموں کشمیر انتظامیہ نے اس خاندان کی فریاد پرکوئی توجہ نہیں دی۔ ان کے پڑوسیوں کا بھی کہنا ہے کہ نصیر کے جانے کے بعد ان کی مالی حالت کافی خستہ ہوگئی ہے۔
مزید پڑھیں: اونتی پورہ کا ایسا گاؤں جہاں مویشی اور انسان ایک ہی جگہ پانی پیتے ہی
گُزشتہ 30 برسوں کے دوران عسکریت پسندوں نے وادی کشمیر کے ایسے کئی نوجوانوں کو ہلاک کیا ہے جو اپنے پورے گھر کا واحد خرچہ اٹھانے والے تھے۔ گرچہ جموں کشمیر انتظامیہ کی جانب سے متاثرہ کُنبوں کو معاوضہ کے ساتھ ساتھ سرکاری نوکری بھی فراہم کی جاتی ہے، لیکن سی آرپی ایف کانسٹیبل نصیر احمد کے لواحقین کے ساتھ معاملہ بالکل برعکس نظر آرہا ہے۔