وادی کشمیرمیں اگرچہ دستکاری صنعت پہلے ہی دم توڑ چکی رہی ہیں، لیکن اب رہی سہی کسر کورونا وائرس کی بحرانی صورتحال نکالی رہی ہے۔
مایوس اور پریشانی کے عالم سے دوچار یہ دستکار اور ان خالی کارخانوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت ان کی مالی حالت کس قدر ابتر ہوگی۔
یہ کاریگر پہلے ہی بڑی مشکل سے اپنے گھر کا گزارا کرتے تھے، لیکن اب یہ اُس نہایت ہی قلیل آمدنی سے بھی محروم ہوگئے ہیں، کیونکہ پشمینہ اور دیگر صنعتوں سے وابستہ بڑے کاروباریوں نے اِنہیں کام دینا بند کر دیا ہے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے ملکی اور بیرون ممالک میں مندی کا بہانہ بناتے ہوئے پشمینہ صنعت سے وابستہ افراد ان چھوٹی دستکاروں کو کام دینے سے ہی انکار کر رہے ہیں، جس وجہ یہ مکمل طور بے کاری اور بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں۔
صبح سے شام تک 2 سو سے ڈھائی سو کمانے والے یہ کاریگر ان پشمینہ لومز میں کام کر کے اپنے اہل وعیال کے لیے دو وقت کی روزی روڑی کا بندوبست کرتے تھے مگر اب کام نہ ملنے کی وجہ سے یہ نان شبینہ کے محتاج ہو گئے ہیں۔
اگرچہ گزشتہ ہفتوں سے فیکٹریوں اور کارخانوں وغیرہ میں کسی حد کام کاج بحال ہو رہا ہے، تاہم ان کے یہ پشمینہ لومز اب بھی خاموشی اور سناٹے کی نظر ہیں، کیونکہ پشمینہ کے بڑے کاروباریوں کی جانب ہاتھ پیچھے کھینچنے سے یہ ان لومز میں نیا کام شروع نہیں کر پارہے ہیں ۔
ان دستکاروں کا کہنا ہے ایک وقت ایسا تھا جب پشمینہ کے بڑے کارخانہ دار انہیں بڑے عزت واحترام سے کام دینے کے لیے آتے تھے لیکن آج کی تاریخ میں انہوں نے ہی ان چھوٹے دستکاروں کے لیے اپنے گھر کے دورازے بند کر دئیے ہیں جس کے باعث یہ اب پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وہیں اس پر ستم ظریفی یہ کہ آئے روز اسکول والوں کی جانب سے بچوں کا فیس ادا کرنے کے فرمان نے ان کے ذہنی دباؤ میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
مشین لومز کی وجہ سے یہاں کی اصلی پشمینہ دستکاری صنعت آخری سانسیں لے رہی ہے۔ حکومت کی عدم دلچسپی اور کارخانہ داروں کی خود غرضی سے اب ہاتھ سے بنانے والے ان بچے کچے کاریگروں کے کام کے دائرے کو بھی تنگ کیا جارہا ہے۔
دستکاروں کا کہنا ہے کہ کام نہ ملنے کی وجہ سے وہ اس قدیم صنعت سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے مگر اس وقت عمر کے اس پڑاؤ پر ہیں کہ اب اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری یا کوئی دوسرا کام نہیں کرسکتے۔