ETV Bharat / state

فور جی پابندی پر خصوصی کمیٹی کی تشکیل: عدالت عظمیٰ نے مرکز سے جواب طلب کیا - JAMMU AND KASHMIR

عدالت نے عرضی پر سماعت کر کے مرکزی حکومت کو حکم جاری کیا تاہم "توہینِ عدالت" کے تعلق سے کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی۔

Committee on 4G ban: Supreme court asks centre to respond within a week
4جی پابندی پر خصوصی کمیٹی کی تشکیل: عدالت عظمیٰ نے مرکز سے جواب طلب کیا
author img

By

Published : Jul 16, 2020, 2:07 PM IST

عدالت عظمی نے جمعرات کو مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتظامیہ سے ایک غیر سرکاری ادارے کی جانب سے توہینِ عدالت سے متعلق ایک عرضی پر جواب طلب کیا ہے۔ غیر سرکاری ادارے نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا تھا کہ عدالت کے حکم کے باوجود بھی مرکزی حکومت اور جموں کشمیر انتظامیہ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں 4 جی انٹرنیٹ پر عائد پابندی کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل نہیں کی ہے۔

جسٹس این وی رمنا کی صدارت میں عدالت عظمیٰ کی تین رکنی بینچ نے مرکزی حکومت کو یہ آرڈر جاری کیا کہ وہ عدالت کے سامنے جموں و کشمیر میں 4 جی انٹرنیٹ خدمات پر عائد پابندی پر خصوصی کمیٹی کی جانب سے لئے گئے فیصلے پر ایک تفصیلی رپورٹ پیش کرے۔

عدالت نے عرضی پر سماعت کر کے مرکزی حکومت کو حکم جاری کیا تاہم "توہینِ عدالت" کے تعلق سے کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی۔

سماعت کے دوران اپنا موقف پیش کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے دعویٰ کیا کہ یہ عدالت کی توہین کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ خصوصی کمیٹی کی تشکیل کی گئی ہے۔ جس پر جسٹس این وی رمنا نے سوال کیا کہ "پھر اس تعلق سے کچھ بھی منظر عام پر کیوں نہیں آیا ہے؟"

عدالت نے مرکزی حکومت سے کہا کہ ایک ہفتے کے اندر عدالت میں اس تعلق سے اُٹھائے گئے تمام اقدامات کی تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: 'سب سے پہلے 4 جی انٹرنیٹ بحال کیا جائے'


اس کے بعد اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس پر غیر سرکاری ادارے کے وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ "مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد وادی میں عسکریت پسندی 1990 کے مقابلے کافی کم ہو چکی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری رام مادھو نے بھی ایک روزنامہ میں شائع مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ "وادی میں پابندیاں ہٹانے کا وقت آ چکا ہے۔" ان سب باتوں کے پیش نظر اٹارنی جنرل کا دعویٰ کتنا صحیح ہے؟"

وہیں جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما عمر عبداللہ نے بھی سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "کتنا آسان ہے! 5 اگست کا فیصلہ لیتے وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے وادی میں عسکریت پسندی ختم ہو جائے گی۔ اور اب تیز رفتار فور جی انٹرنیٹ پر پابندی کا جواز وادی میں تشدد کے واقعات میں اضافہ کو بنایا جا رہا ہے۔ تو اصل بات کیا ہے؟ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے یا کمی ہو رہی ہے۔؟

عمر عبدللہ کا ٹویٹ
عمر عبدللہ کا ٹویٹ

عدالت عظمی نے جمعرات کو مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتظامیہ سے ایک غیر سرکاری ادارے کی جانب سے توہینِ عدالت سے متعلق ایک عرضی پر جواب طلب کیا ہے۔ غیر سرکاری ادارے نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا تھا کہ عدالت کے حکم کے باوجود بھی مرکزی حکومت اور جموں کشمیر انتظامیہ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں 4 جی انٹرنیٹ پر عائد پابندی کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل نہیں کی ہے۔

جسٹس این وی رمنا کی صدارت میں عدالت عظمیٰ کی تین رکنی بینچ نے مرکزی حکومت کو یہ آرڈر جاری کیا کہ وہ عدالت کے سامنے جموں و کشمیر میں 4 جی انٹرنیٹ خدمات پر عائد پابندی پر خصوصی کمیٹی کی جانب سے لئے گئے فیصلے پر ایک تفصیلی رپورٹ پیش کرے۔

عدالت نے عرضی پر سماعت کر کے مرکزی حکومت کو حکم جاری کیا تاہم "توہینِ عدالت" کے تعلق سے کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی۔

سماعت کے دوران اپنا موقف پیش کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے دعویٰ کیا کہ یہ عدالت کی توہین کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ خصوصی کمیٹی کی تشکیل کی گئی ہے۔ جس پر جسٹس این وی رمنا نے سوال کیا کہ "پھر اس تعلق سے کچھ بھی منظر عام پر کیوں نہیں آیا ہے؟"

عدالت نے مرکزی حکومت سے کہا کہ ایک ہفتے کے اندر عدالت میں اس تعلق سے اُٹھائے گئے تمام اقدامات کی تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: 'سب سے پہلے 4 جی انٹرنیٹ بحال کیا جائے'


اس کے بعد اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس پر غیر سرکاری ادارے کے وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ "مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد وادی میں عسکریت پسندی 1990 کے مقابلے کافی کم ہو چکی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری رام مادھو نے بھی ایک روزنامہ میں شائع مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ "وادی میں پابندیاں ہٹانے کا وقت آ چکا ہے۔" ان سب باتوں کے پیش نظر اٹارنی جنرل کا دعویٰ کتنا صحیح ہے؟"

وہیں جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما عمر عبداللہ نے بھی سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "کتنا آسان ہے! 5 اگست کا فیصلہ لیتے وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے وادی میں عسکریت پسندی ختم ہو جائے گی۔ اور اب تیز رفتار فور جی انٹرنیٹ پر پابندی کا جواز وادی میں تشدد کے واقعات میں اضافہ کو بنایا جا رہا ہے۔ تو اصل بات کیا ہے؟ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے یا کمی ہو رہی ہے۔؟

عمر عبدللہ کا ٹویٹ
عمر عبدللہ کا ٹویٹ
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.