جموں و کشمیر لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے 'جموں وکشمیر انٹرپرینرشپ ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ‘(جے کے ای ڈی آئی) میں برسوں سے ملازمین کی تقری اور ترقی میں پائی گئ بدعنوانیوں میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
اس کمیٹی میں محکمہ صنعت و کامرس کے ناظم مال بحیثیت چیئرمین ہیں ان کے علاوہ اسی محکمہ کے ڈائریکٹر پلاننگ، محکمہ قانون، جی اے ڈی، ماینینس محکمہ اور آڈٹ محکمے کے ایک ایک رکن شامل ہیں۔
دراصل رواں برس کے ماہ جولائی میں انتظامیہ نے جے کے ای ڈی آئی کا اپریل 2016 تا مارچ 2020 کا آڈٹ کیا گیا تھا، جس میں ملازمین کی تقرری اور ترقی میں بدعنوانی کی وجہ سے ای ڈی آئی کی عمل پر مفصل آڈٹ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
آڈٹ رپورٹ ماہ ستمبر میں انتظامیہ کو پیش کیا گیا تھا جس میں ملازمین کی بھرتیوں اور ترقیوں میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگی پائی گئی ہے، اس کے علاوہ مختلف درجے کے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی غیر قانونی طور طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔
آڈٹ رپورٹ میں تفصیلی طور پر پایا گیا تھا کہ ای ڈی آئی میں اس وقت 350 ملازمین کام کر رہے تھے جن کو وقتاً فوقتاً بھرتی کیا گیا تھا، لیکن رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بیشتر ملازمین کی بھرتیاں غیر قانونی طور کیے گئے ہیں اور متعدد ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے یا تقرری میں بھی قانونی معیار نہیں رکھا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بے ضابطگی کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہوں اور ترقیوں میں ناانصافی نہیں رہی ہے اور متعدد ملازمین تنخواہ یا ترقی سے محروم کیے گئے ہیں۔
رپورٹ نے تجویز دی گئی تھی کہ ملازمین کی تنخواہوں میں درجے کو نظر میں رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تاکہ تقرری قانون کی پاسداری کو برقرار رکھا جاسکے۔
قابل ذکر ہے کہ ای ڈی آئی نے اپنے تقرری قانون 2013 کے مطابق 350 آسامیوں میں سے 165 آسامیاں بھری تھیں، جن میں 116 ملازمین کو مستقل کیا جا چکا ہے، جبکہ 49 ملازمین کانٹرکچوئل کے بطور کام انجام دے رہے ہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ای ڈی آئی کے منتظمین نے مستقل ملازمین کو انکے پوزیشن کے مطابق تعینات نہیں کیا گیا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ منتظمین نے اسکیم کے ذریعے تقرر کیے ہوئے ملازمین کو مستقل عہدوں پر فائز کیا ہے جس میں تقرری قانون کو پامال کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں 24 ملازمین کی نشاندہی کی گئی ہے جن کو اپنی پوزیشن سے اوپر تعینات کیا گیا ہے، جو بطور کانٹریچوئل ملازمین کے تعینات کیے گئے تھے، لیکن مستقل ہونے کے بعد انکو اپنے درجے سے اوپر مستقل عہدے دیے گئے ہیں جو غیر قانونی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ای ڈی آئ کی بنیاد محکمہ صنعت کے تحت 1997 میں ڈالی گئی تھی اور 2004 سے یہ رفتہ رفتہ کام کرنے لگا، تاہم 2007 کے بعد اسکو تقویت دی گئی اور تقرری اور دیگر لوازمات کے الگ قانون بنائے گئے۔
اس کا اصل مقصد جموں و کشمیر میں تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں میں صنعتی اور تجارت سے آگاہی کرنا ہے اور انکو صنعت اور تجارت سے جوڑنا تھا تاکہ بے روزگاری کو قابو کیا جاسکے۔
اس کے پہلے ناظم ڈاکٹر اسماعیل پرے رہے ہیں جو یکم اپریل سنہ 2016 سے 1 فروری 2019 تک اس عہدے پر فائز رہے ہیں، انکی سبکدوشی کے بعد طفیل متو ایک سال کے قریب اس عہدے پر تعینات رہے اور تاحال غلام محمد ڈار اس عہدے پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ملازمین کے تقرری کے علاوہ آڈٹ رپورٹ نے قرضے اور کریڈٹ اسکیم کو لاگو کرنے میں بھی ای ڈی آئی کی تنقید کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'سیڈ کپٹل فنڈ اسکیم' جو پانچ دسمبر 2009 میں شروع کی گئی تھی اور 2010-11 سے لاگو ہوئی کے مقاصد کو بھی مکمل طور حاصل نہیں کیا گیا ہے۔
رپورٹ نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اسکیم کے تحت سالانہ ھدف کو حاصل نہیں کیا گیا ہے اور اس ضمن میں ای ڈی آئی نے پختہ افدامات نہیں لیے ہے۔
رپورٹ کے مطابق چار برسوں (2016 تا 2020) کے درمیان 8722 یونٹ مختص کیے گئے تھے جن کے لیے 6966 امیدواروں کو ٹریننگ دی گئی تھی، ان میں سے 4893 امیدواروں کے کیسز کو منظوری دی گئی تھی لیکن محض 3911 کیسز بنک کو پیش کیے جس کا صاف مطلب ہے کہ ای ڈی آئی کے پاس منظم اور شفاف میکنزم نہیں ہے، جس کی وجہ سے متعدد امیدوار اپنا کاروبار کرنے سے محروم رہے ہیں۔