کورونا وائرس کے سبب جموں و کشمیر میں زندگی گذشتہ ایک برس سے مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور تعلیم کا سلسلہ گھروں میں آن لائن طریقوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جموں و کشمیر میں نظام تعلیم دفعہ 370 کی منسوخی سے ہی ٹھپ پڑی ہے اور تعلیم محض امتحانات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
اس کے سبب گھروں میں قید بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے جارہے ہیں جبکہ آن لائن موڈ کے ذریعے دی جارہی تعلیم سے بچوں پر مزید ذہنی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اس تعلق سے بچوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ گھروں میں ہی تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن یہ معمول کلاس کا متبادل نہیں ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسکول کے ماحول اور اپنے ساتھیوں سے دور رہنا ان کے لیے ذہنی پریشانی کا باعث ہے۔ فقط چھوٹے بچے ہی نہیں بلکہ کالج اور یونیورسٹی جانے والے طلبہ بھی ذہنی پریشانی کا شکار ہو رہے ہیں۔
غازی مزمل جو کشمیر یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتا یا کہ 'آئن لائن ذریعہ تعلیم، یونیورسٹی کیمپس کا ماحول اور اساتذہ یا دیگر ساتھیوں کے ساتھ گفتگو کے وہ احساسات پیدا نہیں کر سکتا ہے۔
وہیں اس تعلق سے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ 'خاص طور پر لاک ڈاؤن کی دوران بچے اور بزرگ ذہنی دباؤ کا زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ کیونکہ بچے تعلیمی اداروں اور کھیل کود سے محروم ہیں۔ اگرچہ جموں و کشمیر میں انتظامیہ نے لاک ڈاؤن میں نرمی دے رکھی ہے، لیکن تعلیمی ادارے 15 جون تک بند رہیں گے، تاہم اس سے صاف ظاہر ہے کہ بچوں کو اپنے اپنے گھروں میں ہی تب تک رہنا ہوگا۔
ڈاکٹر جنید نبی کا کہنا ہے کہ اس دوران والدین پر مزید ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ بچوں کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھیں تاکہ وہ ذہنی دباؤ سے محفوظ رہ سکیں۔