ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں ہر ایک شعبہ میں نئی نئی ایجادات دیکھنے کو مل رہی ہے وہیں میڈیکل سائنس میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونماء ہوتی دیکھی جارہی ہیں۔ تاہم اس پیش رفت کے باوجود ایسا رجحان بھی دیکھنے کو مل رہا ہے جس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ جی ہاں! ہم بات کر رہے ہیں آپریش کے ذریعے ہونے والی زچگی کی۔
گزشتہ کئی برس کے دوران ملک بھر کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں بھی قدرتی طریقے سے زچگی کی شرح میں نمایاں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جبکہ آپریشن کے ذریعے (سیزرین) ہونی والی زچگی میں تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ آجکل ولادت کے جتنے بھی کیسز ہو رہے ہیں وہ زیادہ تر آپریشن سے ہی عمل میں لائے جارہے ہیں۔ اگچہ یہ بڑھتا رجحان سرکاری ہسپتالوں میں کچھ حد تک کم ہے لیکن اکثر نجی نرسنگ ہومز میں بِنا آپریش کے زچگی ممکن ہی نہیں ہو پاتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں وادی کشمیر کے واحد بڑے زچہ بچہ سرکاری ہسپتال لل دید میں چھوٹی سرجریز سمیت 17 ہزار کے قریب نارمل ڈیلیوریز انجام دی گئی ہیں جبکہ 15 ہزار سے زائد بڑے آپریشنز کے ذریعے زچگی عمل میں لائی گئی ہیں۔ اس ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر 40 سے 50 نارمل ڈیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سرجری سے ہونی والی ڈیلوریز کی تعداد 50 سے 60 بتائی جاتی ہے۔