ETV Bharat / state

سیزرین کے ذریعے زچگی میں خطرناک حد تک اضافہ

اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں وادی کشمیر کے واحد بڑے زچہ بچہ سرکاری ہسپتال لل دید میں چھوٹی سرجریز سمیت 17 ہزار کے قریب نارمل ڈیلیوریز انجام دی گئی جبکہ 15 ہزار سے زائد بڑے آپریشنز کے ذریعے زچگی عمل میں لائی گئی۔ اس ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر 40 سے 50 نارمل ڈیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سرجری سے ہونی والی ڈیلوریز کی تعداد 50 سے 60 بتائی جاتی ہے۔

نارمل ڈیلیوری کا کم ہوتا رجحان
نارمل ڈیلیوری کا کم ہوتا رجحان
author img

By

Published : Feb 27, 2021, 1:51 PM IST

ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں ہر ایک شعبہ میں نئی نئی ایجادات دیکھنے کو مل رہی ہے وہیں میڈیکل سائنس میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونماء ہوتی دیکھی جارہی ہیں۔ تاہم اس پیش رفت کے باوجود ایسا رجحان بھی دیکھنے کو مل رہا ہے جس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ جی ہاں! ہم بات کر رہے ہیں آپریش کے ذریعے ہونے والی زچگی کی۔


گزشتہ کئی برس کے دوران ملک بھر کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں بھی قدرتی طریقے سے زچگی کی شرح میں نمایاں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جبکہ آپریشن کے ذریعے (سیزرین) ہونی والی زچگی میں تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ آجکل ولادت کے جتنے بھی کیسز ہو رہے ہیں وہ زیادہ تر آپریشن سے ہی عمل میں لائے جارہے ہیں۔ اگچہ یہ بڑھتا رجحان سرکاری ہسپتالوں میں کچھ حد تک کم ہے لیکن اکثر نجی نرسنگ ہومز میں بِنا آپریش کے زچگی ممکن ہی نہیں ہو پاتی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں وادی کشمیر کے واحد بڑے زچہ بچہ سرکاری ہسپتال لل دید میں چھوٹی سرجریز سمیت 17 ہزار کے قریب نارمل ڈیلیوریز انجام دی گئی ہیں جبکہ 15 ہزار سے زائد بڑے آپریشنز کے ذریعے زچگی عمل میں لائی گئی ہیں۔ اس ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر 40 سے 50 نارمل ڈیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سرجری سے ہونی والی ڈیلوریز کی تعداد 50 سے 60 بتائی جاتی ہے۔

سیزرین کے ذریعے زچگی میں خطرناک حد تک اضافہ
لل دید یا وادی کے دیگر اضلاع کے ہسپتالوں میں کسی حد تک اگرچہ قدرتی طریقے سے ڈیلیوری (زچگی) ہونے کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن نجی ہسپتال میں سو فیصد زچگی آپریشنز کے ذریعے ہی عمل میں لائی جاتی ہے۔ نجی ہسپتالوں میں نارمل ڈیلیوری کے لئے نہ ہی وہ سہولیات دستیاب ہیں اور نہ ہی وہاں موجود ڈاکٹر صاحبان نارمل زچگی کے لئے گھنٹوں انتظار کرنے کے لئے تیار ہے۔ کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں پیسہ کمانے کا بھی کافی عمل دخل رہتا ہے۔ دیگر کئی وجوہات کے علاوہ نارمل ڈیلیوری کے رجحان میں کمی آنے میں وہ حاملہ خواتین بھی از خود زمہ دار ہیں جو درد زہ کے قدرتی عمل کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہں ہوتی ہیں۔نارمل ڈیلیوری کے رجحان کو بڑھانے کے لئے حاملہ خواتین میں ابتدائی دنوں سے ہی آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ قدرتی طریقے سے بچے کو جنم دینے میں کیا فائدے ہیں اور آپریشن کے بعد کس طرح کی پیچیدگیوں کا سامنا ایک ماں کو کرنا پڑ سکتا ہے۔بہر حال حاملہ خواتین میں نارمل ڈیلیوری کے رجحان کو بڑھانے کے لئے جہاں ڈاکٹر صاحبان کا ایک اہم رول بنتا ہے وہیں سرکاری سطح پرجانکای فراہم کرنے کے لئے کونسلنگ مراکز قائم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کرنا ازحد ضروری ہے۔

ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں ہر ایک شعبہ میں نئی نئی ایجادات دیکھنے کو مل رہی ہے وہیں میڈیکل سائنس میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونماء ہوتی دیکھی جارہی ہیں۔ تاہم اس پیش رفت کے باوجود ایسا رجحان بھی دیکھنے کو مل رہا ہے جس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ جی ہاں! ہم بات کر رہے ہیں آپریش کے ذریعے ہونے والی زچگی کی۔


گزشتہ کئی برس کے دوران ملک بھر کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں بھی قدرتی طریقے سے زچگی کی شرح میں نمایاں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جبکہ آپریشن کے ذریعے (سیزرین) ہونی والی زچگی میں تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ آجکل ولادت کے جتنے بھی کیسز ہو رہے ہیں وہ زیادہ تر آپریشن سے ہی عمل میں لائے جارہے ہیں۔ اگچہ یہ بڑھتا رجحان سرکاری ہسپتالوں میں کچھ حد تک کم ہے لیکن اکثر نجی نرسنگ ہومز میں بِنا آپریش کے زچگی ممکن ہی نہیں ہو پاتی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں وادی کشمیر کے واحد بڑے زچہ بچہ سرکاری ہسپتال لل دید میں چھوٹی سرجریز سمیت 17 ہزار کے قریب نارمل ڈیلیوریز انجام دی گئی ہیں جبکہ 15 ہزار سے زائد بڑے آپریشنز کے ذریعے زچگی عمل میں لائی گئی ہیں۔ اس ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر 40 سے 50 نارمل ڈیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سرجری سے ہونی والی ڈیلوریز کی تعداد 50 سے 60 بتائی جاتی ہے۔

سیزرین کے ذریعے زچگی میں خطرناک حد تک اضافہ
لل دید یا وادی کے دیگر اضلاع کے ہسپتالوں میں کسی حد تک اگرچہ قدرتی طریقے سے ڈیلیوری (زچگی) ہونے کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن نجی ہسپتال میں سو فیصد زچگی آپریشنز کے ذریعے ہی عمل میں لائی جاتی ہے۔ نجی ہسپتالوں میں نارمل ڈیلیوری کے لئے نہ ہی وہ سہولیات دستیاب ہیں اور نہ ہی وہاں موجود ڈاکٹر صاحبان نارمل زچگی کے لئے گھنٹوں انتظار کرنے کے لئے تیار ہے۔ کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں پیسہ کمانے کا بھی کافی عمل دخل رہتا ہے۔ دیگر کئی وجوہات کے علاوہ نارمل ڈیلیوری کے رجحان میں کمی آنے میں وہ حاملہ خواتین بھی از خود زمہ دار ہیں جو درد زہ کے قدرتی عمل کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہں ہوتی ہیں۔نارمل ڈیلیوری کے رجحان کو بڑھانے کے لئے حاملہ خواتین میں ابتدائی دنوں سے ہی آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ قدرتی طریقے سے بچے کو جنم دینے میں کیا فائدے ہیں اور آپریشن کے بعد کس طرح کی پیچیدگیوں کا سامنا ایک ماں کو کرنا پڑ سکتا ہے۔بہر حال حاملہ خواتین میں نارمل ڈیلیوری کے رجحان کو بڑھانے کے لئے جہاں ڈاکٹر صاحبان کا ایک اہم رول بنتا ہے وہیں سرکاری سطح پرجانکای فراہم کرنے کے لئے کونسلنگ مراکز قائم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کرنا ازحد ضروری ہے۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.