سرینگر: پہلے یہ کس نے سوچا تھا کہ چند ماہ تربیت پاکر یہ نوجوان اس طرح اپنے جسم میں لچک پیدا کر کے حیران کن کرتب دکھانے کے قابل بن جائیں گے اور یہ سب کی توجہ کا مرکز بھی بننے گے۔ یہ سب کشمیر کی پہلی کیلیس تھینک اکیڈمی کے بچے ہیں جو کہ امسال ہی شہر سرینگر کے بمنہ علاقے میں قائم کی گئی ہے۔ Calisthenics Academy in Srinagar
کیلیس تھینک کھیل کے اس طرح کی مشقیں انڈور کے علاوہ پارکوں اور دیگر عوامی مقامات پر بھی بنا کسی زیادہ سازوسامان یا خرچے کے کی جاسکتی ہیں۔ اکیڈمی میں تربیت حاصل کر رہے یہ نوجوانوں کہتے ہیں کہ اس کھیل سے نہ صرف ان کی جسمانی اور دماغی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں بلکہ آگے جاکر ایک اتھلیٹ کے طور پر بھی اپنے مسقبل کو سنوارا جاسکتا ہے۔
انٹرنیٹ عام ہونے سے جہاں صحت مند طرز زندگی کے اصولوں کی معلومات تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ وہیں اب یہاں کے نوجوان اپنے جسم کو تندرست اور توانا رکھنے کے لیے نہ صرف فٹنس سینٹروں تک ہی محدو رہے ہیں بلکہ کیلس تھینک کھیل میں بھی کافی دلچسپی دکھا رہے ہیں جس کا یہاں پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کیلس تھینک کے ذریعے اپنے جسم کو مضبوط بنانا ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ہے، کیونکہ اس میں بہت زیادہ ورزش کرنے، طاقت اور سب سے اہم مضبوط ارادے کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن اکیڈمی کے یہ بچے پُرامید ہیں کہ ان کی یہ محنت آگے جاکے رنگ لائے گی۔
کیلس تھینک کھیلوں کا آغاز سب سے پہلے یونان میں شروع ہوا تھا، جو کہ 19ویں صدی میں پھر کافی مقبول ہوئے۔ اس میں کھلاڑی اپنے وزن کا متوازن طریقے سے استعمال کرکے اپنی جسمانی لچک کو بڑھتا ہے۔ سرینگر میں قائم اپنی نوعیت کی اس پہلی کیلس تھینک اکیڈمی میں اس وقت تقریباً 20 لڑکے تربیت حاصل کر رہے ہیں اور دن بدن تربیت پانے کے لیے نوجوانوں میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
مزید پڑھیں:
اکیڈمی کے ٹرینر عمران احمد کہتے ہیں کہ تربیت پارہے ہیں یہ بچے نہ صرف جسمانی طور پر بےحد مضبوط ہورہے ہیں بلکہ مشقت بھرے کھیل سے نوجوان منشیات اور دیگر برے کاموں سے بھی دور رہ سکتے ہیں۔ نوجوانوں کے جسم کو مضبوط اور مزید لچکدار بنانے کے لیے اس کیلس تھینک اکیڈمی میں ابھی درمیانہ درجے کی ہی ٹریننگ دی جارہی ہے۔ ایسے میں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کھیل کو فروغ دینے کے لیے سرکاری سطح پر بھی اقدامات اٹھائے جائیں۔