سرینگر:سی پی آئی ایم کے سینیئر رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ جموں وکشمیر کے عوام کو ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے سپریم کورٹ پر بھروسہ سے ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے 11 دسمبر کو دفعہ 370 اور 35 اے سے متعلق محفوظ کیا گیا،اب فیصلہ عوامی توقعات کے عین مطابق ہی ہوگا۔ان باتوں کا اظہار ایم وائی تاریگامی نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین کے ساتھ ایک خاص بات چیت کے دوران نے کیا۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے مرکزی سرکار کے 2019 کے فیصلے کو چلینج کرنے والی درخواستوں پر سپریم کی 5 رکنی بنچ نے جس طرح سُنا اور جس انداز میں درخواست دہندگان کے وکلاء کی جانب سے دلائل پیش کئے گئے اس سے یہ امید جگی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جموں و کشمیر کے حق میں فیصلہ سنائی گی۔
انہوں نے کہا کہ غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقے سے جس طرح جموں و کشمیر کے آئین کو بالائے طاق رکھکر جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت 5 اگست 2019 کو ختم کرکے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اس کی مثال سوائے کشمیر کے ملک کی کسی بھی خطے یا ریاست کی نہیں ملتی ہے۔ایسے میں اب کافی عرصے بعد درخواستوں کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کا جو فیصلہ اس حوالے سے پیر کو آنے والا ہے وہ نہ صرف ایک سیاستدان بلکہ ایک درخواست گزار کی حیثیت سے مجھے یقین ہے جموں وکشمیر کے لوگوں کو انصاف ملے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بی جی پی کی مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک جانب جہاں دفعہ 370کی منسوخی سے متعلق معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں ہی ہیں، لیکن اس بیچ لوک سبھا میں جموں وکشمیر تنظیم نو اور ریزرویشن بل کو منظور کرنا قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر تنظیم ترمیمی بل ایک ایسے وقت میں منظور کیا گیا جب تنظیم نو کا ایک ایکٹ خود عدالتی جانچ کے تحت عدالت عظمی نے درخواست گزاروں اور حکومت کے دلائل سنے ہیں اور اس نے ابھی اپنا فیصلہ سنانا ہے۔ایسے میں ترمیمی بلوں کی منظوری جمہوری اور عدالتی طرز عمل کے بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے۔
مزید پڑھیں:
محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ دوسرے جانب کشمیری پنڈت برادری کے دو اسلمبی نشتیں کی نامزدگی موجودہ حکومت کے ان کے آبائی علاقوں میں دوبارہ آباد نہ کرنے کے ارادوں کی عکاسی کرتی ہے اور یہ نامزدگیاں کشمیری پنڈت برادی کو فائدہ دینے کے بجائے اپنا نمبر بڑھانے کی طرف ایک اور بی جے پی کا ہتھکنڈا ہے۔
بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے حد بندی کے عمل سے انتخابی فہرستوں کی اپ گریڈیشن اور معمول کے بڑے بڑے دعووں کے باوجود 2018 سے اسمبلی انتخابات کرانے سے انکار کر کے جموں وکشمیر میں عوام کو بے اختیار رکھنے پر بضد نظر آرہی ہے۔