جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری نے جموں وکشمیر بینک کے 8.23 فیصد شیئرز اور واجبات کی یونین ٹیراٹری لداخ کو منتقلی کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
اپنی پارٹی کے صدر نے انتظامی فیصلے کو یکطرفہ اور آمرانہ نوعیت کا قرار دیا اور کہا جموں اینڈ کشمیر بینک یہاں کے شہریوں کا قیمتی سرمایہ ہے جس کے اثاثوں کی تقسیم حقیقی حصہ داروں کو اعتماد میں لیے بغیر کرنا بدقسمت آمیز ہے۔
انہوں نے کہا: 'جموں و کشمیر دہائیوں سے ہماری معیشت میں ریڑھ کے طور رہی ہے، اور یہ مقامی لوگوں کی حمایت اور تعاون کی وجہ سے پھلا پھولا اور ترقی کی جنہوں نے اس پر اپنا بے حد اعتماد اور بھروسہ جتایا'۔
انہوں نے کہا: '4.583 کروڑ شیئرز کو لداخ یونین ٹیرٹری کو منتقل کا فیصلہ آمرانہ ہے جس سے جموں وکشمیر کے مقامی لوگوں میں سخت مایوسی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ فیصلے پر نظرثانی کی جائے اور حتمی فیصلہ لینے سے قبل سبھی حصہ داروں کو اعتماد میں لیاجائے'۔
الطاف بخاری نے کہا کہ اسی طرح حکومت نے غیر منصفانہ طور جے کے ہاوس چنکیہ پوری کے اثاثہ جات یوٹی لداخ کو منتقل کئے جس کی وجہ سے جموں وکشمیر کے شہریوں کے ساتھ امتیاز برتا گیا۔
انہوں نے کہا: 'جے کے ہاوس اثاثہ جات کی منتقلی بھی اس وجہ سے غیر منصفانہ تھی کہ مرکزی زیر انتظام جموں و کشمیر کی آبادی لداخ یونین ٹیریٹری سے بہت زیاد ہ ہے۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر کے ملازمین لداخ سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ اسی طرح انتہائی اہم شخصیات جیسے اراکین قانون سازیہ اور جموں وکشمیر ہائی کورٹ ججوں کی رہائش کو بھی لداخ یوٹی کو منتقل کیا گیا ہے جہاں کوئی قانون ساز اسمبلی نہیں ہے۔ ایسے فیصلے جات جموں و کشمیر کے حصہ داروں کے ساتھ باقاعدہ صلاح ومشورہ کے بعد لئے گئے'۔
انہوں نے کہا: 'اس وقت جموں و کشمیر کی اکثریتی آبادی انتظامیہ کے طور طریقہ سے خود کو الگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں، انتہائی قابل ترین مقامی افسران کا کیڈر ہونے کے باوجود جموں و کشمیر میں مختلف انتظامی محکمہ جات کے اہم عہدے غیر مقامی افسران کو دیئے گئے ہیں'۔
بخاری نے لیفٹیننٹ گورنر سربراہی والی جموں وکشمیر حکومت سے گذارش کی ہے کہ من مرضی سے فیصلے لینے کے رجحان کو روکیں۔ مقامی لوگوں کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اُن کے اعتماد کو جیتنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔
اپنی پارٹی صدر نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، ایک ایسی تبدیلی جس سے فیصلہ سازی عمل میں اُن کی مناسب نمائندگی ہو اور دیرینہ مطالبات حل ہوں۔ حکومت ہند کی طرف سے جموں وکشمیر کے لئے جو ترقیاتی ماڈل پیش کیا جا رہا ہے اُس میں اقلیتی طبقہ جات کے مفادات کو برقرار رکھتے وقت اکثریتی آبادی کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز وتعصب نہ برتا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر جموں و کشمیر اور لداخ یونین ٹیریٹری کے درمیان اثاثوں اور واجبات کی منصفانہ تقسیم کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات نہ کئے گئے، تو اس سے لوگوں میں علیحدگی اور اجنبیت کا احساس مزید بڑھے گا اور خرمن امن کو زک پہنچانے والے عناصر ایسا ہی چاہتے ہیں۔