ادھر وادی کشمیر سے جن فیس بک اور ٹویٹر صارفین نے اس موضوع پر ٹویٹ کیا ہے ان میں سے بعض نے اظہار افسوس تو بعض نے کہا ہے کہ دونوں سابق وزرائے اعلیٰ نے اپنے اپنے دور حکومت میں بھی نہ جانے کتنے لوگوں پر پی ایس اے عائد کیا ہوگا آج انہیں خود کی باری آگئی۔
قابل ذکر ہے کہ پی ایس اے کو انسانی حقوق کے عالمی نگراں ادارے 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے ایک 'غیرقانونی قانون' قرار دیا ہے۔ اس کے تحت عدالتی پیش کے بغیر کسی بھی شخص کو کم از کم تین ماہ تک قید کیا جا سکتا ہے۔ جموں وکشمیر میں اس قانون کا اطلاق حریت پسندوں اور آزادی حامی احتجاجی مظاہرین پر کیا جاتا ہے۔ جن پر اس ایکٹ کا اطلاق کیا جاتا ہے اُن میں سے اکثر کو کشمیر سے باہر جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔
معروف صحافی ندی رازدان نے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر حکومت کی طرف سے پی ایس اے کے اطلاق پر ٹویٹ کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا کہ نارملسی کہاں ہے۔
انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا: 'عمر عبداللہ کا چھ ماہ کی حراست سے قبل آخری ٹویٹ امن و آشتی بنائے رکھنے کی اپیل تھا، قانونی طور پر عمر عبداللہ کی سیکشن 107 کے تحت نظر بندی کل اختتام پذیر ہوگی لیکن حکومت ہند نے پی ایس اے عائد کرکے ان کی اور محبوبہ مفتی کی حراست میں توسیع کی ہے، نارملسی کہاں ہے'۔