کشمیر وادی میں 18 مارچ 2020 میں شہر خاص کے خانیار علاقے میں ایک 65 سالہ معمر خاتوں کا کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آنے کے ساتھ ہی انتظامیہ نے احتیاطی اقدام کے طور پر اگلے دن 19 مارچ سے کشمیر میں بندشیں عائد کرتے ہوئے تمام تعلیمی، کاروباری، تجارتی اور دیگر سرگرمیوں پر روک لگا دی اور پھر 5 روز بعد ملک گیر لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔
اقتصادی اور معاشی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے مختلف نجی اور سرکاری اداروں کے مطابق جموں و کشمیر میں گزشتہ 60 دن کے عرصے کے دوران معیشت کو روزانہ 270 کروڑ کا خسارہ ہو رہا ہے۔ اس میں پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کے تحت چلنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔
صنعت و حرفت سے لے کر سیاحت اور باغبانی تک کے شعبہ جات کو ناتلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق 270 کروڑ کے نقصان میں سے کشمیر کا حصہ 150 کروڑ روپے سے زیادہ یے۔ گزشتہ برس اگست کے اوائل میں عائد پابندیوں اور قدغنوں سے نومبر 2019 تک کشمیر کی اقتصادیات کو 17878 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا تھا۔
اس بیچ اب کورونا وائرس کے خوف، خدشے اور جاری لاک ڈاؤن نے ہر شعبہ اور طبقے سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں اور ہنر مندوں کو بھی مالی تنگی سے دوچار کر دیا ہے۔
ڈرائیور، کنڈیکٹر حضرات، آٹو رکشا والے،ورکشاپوں میں کام کرنے والے ماہر کاریگراور دیگر محنت کش بے کاری اور بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں ۔ وہیں دیگر تعمیراتی کاموں سے منسک مزدور، ترکھان، گلکار،پلمبراور سینکڑوں لوہار بھی اپنے اپنے گھروں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
سرکار نے اگچہ راشن کارڈ ہولڈروں یعنی بی پی ایل، اے اے آئی اور دیگر نچلے زمرے کے تحت آنے والے طبقوں کے فی فرد کو 5 کلو کے حساب سے دو مہینوں کا راشن فراہم کیا ہے تاہم ان غریبوں اور مالی لحاظ سے ان کمزور طبقہ کا کوئی پر سان حال نہیں ہے، جن کے راشن کارڈ نہیں ہیں ۔
یہ طبقے فلاحی تنظیموں اور دیگر صاحب ثروت لوگوں کے سہارے اور مدد کے دن گزار رہے ہیں ۔
واضح رہے کہ اگست 2019 کی پیدا شدہ صورتحال کے بعد وادی کشمیر کے تجارت پیشہ افراد اور کاروباری طبقہ کے ساتھ ساتھ سیاحت،باغبانی اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ افراد کو یہ امید تھی کہ شاید 2019 میں ہوئے نقصان کی بھر پائی اب 2020 میں کسی حد تک کر پائےگے لیکن عالمی وبا کورونا وائرس نے ان امیدوں پر پھر سے پانی پھیر دیا۔