ETV Bharat / state

ٖJournalists Resign After Terror Threats کشمیر میں دھمکیوں کے بعد صحافیوں کا استعفیٰ

کشمیر میں ایک انگریزی اخبار میں کام کرنے والے چند صحافیوں نے مبینہ دھمکی ملنے کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے۔ Journalists Resign After Terror Threats

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : Nov 16, 2022, 9:18 AM IST

Updated : Nov 16, 2022, 1:07 PM IST

سرینگر: سری نگر سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار کے لیے کام کرنے والے پانچ نوجوان صحافیوں نے اس وقت استعفیٰ دے دیا جب لشکر طیبہ سے منسلک دی رسسٹینس فرنٹ نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں کشمیر نشین 21 صحافیوں کو "فوجی ایجنٹ اور مخبر" قرار دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت ایف آئی آر درج کر کے تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔ Journalists Resign After Terror Threats

ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ "پوسٹ کا مواد واضح طور پر دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کی نیت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے عوام بالخصوص میڈیا والوں کو سرعام کرپٹ کہہ کر اور ان کی زندگیوں کو براہ راست خطرے میں ڈال دیا ہے۔" سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پولیس نے تقریباً ایک درجن مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے اور ان سے ٹی آر ایف کے ساتھ مبینہ تعلق کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

کسی بھی پریشانی سے بچنے کے لیے تین رپورٹرز نے اپنے سوشل میڈیا پیجز پر استعفے شائع کیے ہیں۔پولیس کہتی آئی ہے کہ دی ریزسٹنس فرنٹ یا ٹی آر ایف، اصل میں لشکر طیبہ کا ایک فرنٹ ہے جسے سرحد پار سے رہنمائی کی جاتی ہے۔ مبینہ عسکریت پسندوں نے سرینگر میں تین صحافتی اداروں گریٹر کشمیر، رائزنگ کشمیر اور اے این این کے لیے کام کرنے والے کسی کو بھی صحافی کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔

کشمیر میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کررہے ہیں۔ ایک جانب سے نامعلوم عسکریت پسند انہیں دھمکیاں دیتے ہیں اور انہیں حکومت کے ایجنٹ یا مخبر جتاتے ہیں تو دوسری جانب حکومت اور اسکے ذیلی اداروں نے بھی کئی صحافیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اخبارات کے اشتہارات یا تو بند کئے گئے ہیں یا انکا حجم گھٹا دیا گیا ہے۔ کئی صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ متعدد پر سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔بہت سے لوگوں کو نو فلائی لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے اور بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ حال ہی میں پلٹزر ایوارڈ جیتنے والے کشمیری صحافی ثناء ارشاد متو کو انعام لینے کے لیے نیویارک جانے سے روک دیا گیا۔ Five Journalists Resign After Terror Threats in Kashmir

رائزنگ کشمیر اخبار، جس سے وابستہ کم از کم تین صحافیوں نے استعفیٰ دیا ہے ، کو ماضی میں بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسکے مالک اور مدیر شجاعت بخاری کو انکے دفتر کے باہر عسکریت پسندوں نے جون 2018 میں ہلاک کردیا۔ حکام کا کہنا ہے اس سازش کا پتہ لگاکر ، ہلاکت میں ملوث عسکریت پسندوں کی نشاندہی بھی کی گئی۔ ہلاکت سے قبل شجاعت بخاری کے خلاف پاکستان سے اپلوڈ کئے جانے والے ایک بلاگ ’’دی کشمیر فائٹ‘‘ میں مخالفانہ مواد تحریر کیا گیا تھا۔ پولیس نے گزشتہ برس ایک کریک ڈاؤن کے دوران سرینگر میں ایک سرکاری ملازم اور انکے دو بیٹوں کو گرفتار کرکے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کشمیر فائٹ بلاگ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

سرینگر میں کشمیر پریس کور نامی صحافیوں نے ایک انجمن نے پیشہ ور صحافیوں کے خلاف کارروائیوں کی مزمت کی ہے اور ایسے اقدامات کو آزادی صحافت کے منافی قرار دیا ہے۔

سرینگر: سری نگر سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار کے لیے کام کرنے والے پانچ نوجوان صحافیوں نے اس وقت استعفیٰ دے دیا جب لشکر طیبہ سے منسلک دی رسسٹینس فرنٹ نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں کشمیر نشین 21 صحافیوں کو "فوجی ایجنٹ اور مخبر" قرار دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت ایف آئی آر درج کر کے تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔ Journalists Resign After Terror Threats

ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ "پوسٹ کا مواد واضح طور پر دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کی نیت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے عوام بالخصوص میڈیا والوں کو سرعام کرپٹ کہہ کر اور ان کی زندگیوں کو براہ راست خطرے میں ڈال دیا ہے۔" سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پولیس نے تقریباً ایک درجن مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے اور ان سے ٹی آر ایف کے ساتھ مبینہ تعلق کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

کسی بھی پریشانی سے بچنے کے لیے تین رپورٹرز نے اپنے سوشل میڈیا پیجز پر استعفے شائع کیے ہیں۔پولیس کہتی آئی ہے کہ دی ریزسٹنس فرنٹ یا ٹی آر ایف، اصل میں لشکر طیبہ کا ایک فرنٹ ہے جسے سرحد پار سے رہنمائی کی جاتی ہے۔ مبینہ عسکریت پسندوں نے سرینگر میں تین صحافتی اداروں گریٹر کشمیر، رائزنگ کشمیر اور اے این این کے لیے کام کرنے والے کسی کو بھی صحافی کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔

کشمیر میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کررہے ہیں۔ ایک جانب سے نامعلوم عسکریت پسند انہیں دھمکیاں دیتے ہیں اور انہیں حکومت کے ایجنٹ یا مخبر جتاتے ہیں تو دوسری جانب حکومت اور اسکے ذیلی اداروں نے بھی کئی صحافیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اخبارات کے اشتہارات یا تو بند کئے گئے ہیں یا انکا حجم گھٹا دیا گیا ہے۔ کئی صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ متعدد پر سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔بہت سے لوگوں کو نو فلائی لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے اور بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ حال ہی میں پلٹزر ایوارڈ جیتنے والے کشمیری صحافی ثناء ارشاد متو کو انعام لینے کے لیے نیویارک جانے سے روک دیا گیا۔ Five Journalists Resign After Terror Threats in Kashmir

رائزنگ کشمیر اخبار، جس سے وابستہ کم از کم تین صحافیوں نے استعفیٰ دیا ہے ، کو ماضی میں بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسکے مالک اور مدیر شجاعت بخاری کو انکے دفتر کے باہر عسکریت پسندوں نے جون 2018 میں ہلاک کردیا۔ حکام کا کہنا ہے اس سازش کا پتہ لگاکر ، ہلاکت میں ملوث عسکریت پسندوں کی نشاندہی بھی کی گئی۔ ہلاکت سے قبل شجاعت بخاری کے خلاف پاکستان سے اپلوڈ کئے جانے والے ایک بلاگ ’’دی کشمیر فائٹ‘‘ میں مخالفانہ مواد تحریر کیا گیا تھا۔ پولیس نے گزشتہ برس ایک کریک ڈاؤن کے دوران سرینگر میں ایک سرکاری ملازم اور انکے دو بیٹوں کو گرفتار کرکے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کشمیر فائٹ بلاگ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

سرینگر میں کشمیر پریس کور نامی صحافیوں نے ایک انجمن نے پیشہ ور صحافیوں کے خلاف کارروائیوں کی مزمت کی ہے اور ایسے اقدامات کو آزادی صحافت کے منافی قرار دیا ہے۔

Last Updated : Nov 16, 2022, 1:07 PM IST

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.