ابھی سال شروع ہی ہورہا تھا کہ پلوامہ خود کش دھماکے کا واقعہ وقوع پذیر ہوا جس نے بھارت اور پاکستان کو جنگ کی دہلیز تک پہنچا دیا اور بعد ازاں ماہ اگست کے اوائل میں مرکزی حکومت نے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کو منسوخ کیا اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کیا جس کے نتیجے میں وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتالوں اور غیر یقینی صورتحال کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جس کے جزوی نقوش ہنوز جاری ہیں اور تمام تر مواصلاتی نظام پر پابندی عائد کی گئی۔
وادی میں انٹرنیٹ سہولیات پر جاری پابندی ایک نیا عالمی ریکارڈ بن گئی نیز مزاحمتی لیڈروں کے علاوہ وادی کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے بیشتر لیڈروں بشمول تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو خانہ یا تھانہ نظر بند کیا گیا۔
وادی کشمیر یوں تو شورش زدہ علاقوں کی فہرست میں پہلے ہی جلی حروف سے درج ہے لیکن سال 2019 کے دوران کئی تاریخی فیصلے اور غیر معمولی نوعیت کے واقعات رونما ہوئے جن کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ سال 2019 وادی کشمیر کے لیے ایک تاریخی اور مثالی سال کی حیثیت رکھتا ہے۔
سال کے دوسرے مہینے کی 14 تاریخ کو ہی جنوبی کشمیر میں ضلع پلوامہ کے لیتہ پورہ علاقے میں وادی میں وقوع پذیر ہونے والا اپنی نوعیت کا سب سے بڑا خود کش حملہ پیش آیا جس کے نتیجے میں نہ صرف سی آر پی ایف کے زائد از 40اہلکار از جان ہوئے۔ بلکہ بھارت اور پاکستان جنگ کی دہلیز تک پہنچ گئے۔ بھارت نے انتقامی کارروائی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے 26 فروری کو پاکستان کے اندر گھس کر بالاکوٹ پر حملہ کیا اور پاکستان نے بھی اگلے ہی روز جموں و کشمیر میں داخل ہوکر جوابی کارروائی عمل میں لائی اس دوران پاکستان نے بھارت کا ایک جنگی طیارہ گرا کر ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کیا تاہم بعد ازاں پاکستان نے ابھی نندن کو بغیر کسی شرط کے اپنے ملک کے حوالے کیا۔
طرفین کے درمیان تناؤ کے بیچ بھارت کے طیارے کو غلط فہمی کی بنیاد پر اپنے ہی ساتھیوں نے گرایا جو وسطی ضلع بڈگام کے گریند کلان علاقے میں زمین بوس ہوا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار چھ افسروں کے علاوہ ایک عام شہری جان بحق ہوا۔
سال 1971 کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ دونوں ممالک کے جنگی طیاروں نے ایک دوسرے کی سرحدوں کو پار کرکے کارروائیاں کیں۔
پلوامہ خود کش حملے کی ذمہ داری جیش محمد نامی جنگجو تنظیم نے قبول کی اور عادل احمد عرف وقاص کمانڈو ساکن کاکہ پورہ پلوامہ نے حملہ انجام دیا۔
وادی میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن 'آپریشن آل آؤٹ' اور حریت و دیگر تجارتی رہنماؤں کے خلاف این آئی اے کی کارروائیاں جاری ہی تھیں کہ حکومت نے 28 فروری کو جماعت اسلامی جموں کشمیر کو کالعدم قرار دیا تاہم اس سے منسلک تعلیمی اداروں، مساجد اور یتیم خانوں کو پابندی سے مستثنیٰ قراردیا گیا۔
جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے خلاف گورنر انتظامیہ نے پہلے ہی کریک ڈاؤن شروع کیا تھا اور درجنوں رہنماؤں اور کارکنان کو حراست میں لیا گیا تھا اور ان کے اثاثوں اور جائیداد کو سر بمہر کیا گیا تھا علاوہ ازیں چند ہفتے بعد جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو بھی کاالعدم قرار دیا گیا اور فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک دہلی کی تہاڑ جیل میں ہنوز مقید ہیں۔
وادی کشمیر میں معمولات زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھے کہ ماہ اپریل کی 17 تاریخ سے انتظامیہ نے وادی کو ملک کے دوسرے حصوں کے ساتھ جوڑنے والی سری نگر- جموں قومی شاہراہ پر سیول ٹریفک کی نقل وحمل پر ہفتے میں دو دن اتوار اور بدھ کو پابندی عائد کی جس سے وادی کی سیاسی جماعتوں میں ہل چل مچ گئی اور نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس نے احتجاج درج کرکے دھرنے دیے۔
شاہراہ کو ہفتے میں دو دن سیول ٹریفک کے لئے معطل رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ان دو دنوں شاہراہ پر صرف فوجی کانوائوں کو چلنے کی اجازت تھی۔
ماہ اپریل میں وزارت داخلہ کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری ہوا جس میں سلام آباد (اوڑی) اور چکن دا باغ (پونچھ) کرسنگ پوائنٹس پر ہند - پاک دو طرفہ تجارت تاحکم ثانی معطل کیا گیا۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ یہ تجارت غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ تب سے لیکر اب تک سری نگر – مظفر آباد اور پوچھ - راولا کوٹ بس سروسز بھی معطل ہی ہیں۔
ماہ مئی کے اوائل ہی میں بانڈی پورہ کے سمبل علاقے ہیں آبرو ریزی کا ایک مبینہ اور انتہائی دل آزار واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں ابھرنے والی وادی گیر احتجاجی لہروں نے تعلیمی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔
احتجاجوں کے دوران چینہ بل کا رہنے والا ایک نوجوان ارشد حسین از جان بھی ہوا۔ تین سالہ بچی کی عصمت دری کیس میں مبینہ طور ملوث نوجوان فی الوقت زیر حراست ہی ہے۔
ماہ مئی کی 23 تاریخ کو پارلیمانی انتخابات کے نتائج منظر عام پر آگئے اور وادی کشمیر کی تینوں پارلیمانی نشستوں پر نیشنل کانفرنس کے ڈاکٹر فاروق عبداللہ، جسٹس (آر) حسنین مسعودی اور اکبر لون نے قبضہ جمایا جبکہ اس کے عین برعکس سال 2014 میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں پی ڈی پی نے تینوں سیٹوں پر جیت کا جھنڈا گاڑا تھا۔
جموں کی دو نشستوں پر بی جے پی کے ڈاکٹر جیتندر سنگھ اور جگل کشور اور خطہ لداخ کی نشست پر بی جے پی کے ہی جمیانگ سیرنگ نمگیال نے فتح حاصل کی۔
ماہ جون کی 10 تاریخ کو کٹھوعہ عصمت دری وقتل کیس کا فیصلہ سامنے آیا۔ پنجاب کی ایک عدالت نے صوبہ جموں کے ہندو اکثریتی ضلع کٹھوعہ میں سال 2018 کے ماہ جنوری میں ایک آٹھ سالہ کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل کیس کے آٹھ میں سے چھ ملزموں کو مجرم قرار دیا جن میں سے تین کو عمر قید جبکہ تین کو پانچ پانچ سال سزا سنائی گئی ساتویں ملزم وشال جنگوترا کو ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بنا پر بری قرار دیا گیا جبکہ آٹھواں ملزم جو نابالغ ہے، کے خلاف جوینائل کورٹ میں کیس جاری ہے۔
کیس کے ملزمان میں عصمت دری و قتل واقعہ کے منصوبہ ساز و سابق سرکاری افسر سانجی رام، اس کا بیٹا وشال جنگوترا، سانجی رام کا بھتیجا (نابالغ ملزم)، نابالغ ملزم کا دوست پرویش کمار عرف منو، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتی افسران سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج شامل تھے۔
ماہ جون کی 30 تاریخ کو سری نگر سے تعلق رکھنے والی بالی ووڈ اداکارہ زائرہ وسیم نے فلمی دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ دنگل اور سیکرٹ سوپر سٹار جیسی بلاک بسٹر فلموں میں کام کرنے والی 18 سالہ زائرہ وسیم کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں ایمان اور برکت کھو رہی تھی اور مذہب کو خطرے میں محسوس کررہی تھی۔
ماہ جولائی کے اواخر میں وادی میں سیکورٹی فورسز کی سینکڑوں اضافی کمپنیوں کی تعیناتی سے اہلیان وادی متنوع خدشات و پریشانیوں کے دلدل میں پھنس گئے اور خوف وہراس کے ماحول نے وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس دوران یہاں کے سیاسی و مزاحمتی لیڈران بھی محو پریشانی تھے اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ، نائب صدر عمر عبداللہ اور رکن پارلیمان جسٹس (آر) حسنین مسعودی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقی بھی ہوئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ آخر یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔
ماہ اگست کے اوائل ہی میں حکومت کی طرف سے ایک ایڈوائزری جاری کی گئی جس میں وادی میں مقیم سیاحوں اور امرناتھ یاتریوں کو فی الفور وادی چھوڑنے کی ہدایات دی گئیں۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ امرناتھ یاترا ماہ اگست میں ہی بند کی گئی تھی۔
وادی میں سراسیمگی اور اضطرابی کیفیات کا ماحول سیہ فگن ہی تھا کہ پانچ اگست کو مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کا اعلان کیا اور دن میں اعلان سے قبل ہی نیم شب کو ہی جموں کشمیر اور لداخ میں مواصلاتی نظام کو بند کیا گیا تھا اور وادی کے مزاحمتی لیڈروں کے علاوہ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں سے وابستہ لیڈروں بشمول سابق تین وزرائے اعلیٰ داکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو خانہ یا تھانہ نظر بند کیا گیا جن میں سے اگرچہ بعض لیڈروں کو رہا کیا گیا لیکن اکثر ابھی بھی زیر حراست ہی ہیں۔
مرکزی حکومت کے متذکرہ فیصلوں کے پیش نظر وادی میں بندشوں اورغیر اعلانیہ ہڑتالوں ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا، انتظامیہ کی طرف سے عائد کی گئی بندشیں اگرچہ جلد ہی ختم کی گئی لیکن ہڑتالوں کا سلسلہ قریب چار ماہ تک جاری رہا۔
لینڈ لائن خدمات کو مرحلہ وار طریقے سے بحال کرنے کا سلسلہ اگرچہ ماہ اگست کے آخری ایام میں ہی شروع ہوا اور بعد ازاں ماہ اکتوبر میں پوسٹ پیڈ موبائل سروس بحال کی گئی لیکن تمام طرح کی انٹرنیٹ خدمامت پر پابندی ہنوز جاری ہے چہ جائیکہ جموں میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ بحال ہے اور لداخ کے دونوں ضلعوں میں تمام طرح کی انٹرنیٹ خدمات بحال ہوئی ہیں۔
انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندیوں کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ مرکزی حکومت کے اپنے تشہیری اداروں جیسے پی آئی بی، ریڈیو اور دور درشن میں بھی انٹرنیٹ سہولیات معطل کردی گئی تھیں۔
وادی میں انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی سے جہاں تجارت کو کروڑوں روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا وہیں تعلیمی شعبے کو بھی نا قابل تلافی نقصان کا سامنا ہے۔ ای کامرس مکمل طور پر ٹھپ ہے اور اس سے وابستہ سینکڑوں نوجوان بے روز گار ہوئے ہیں۔
اگرچہ حکومت نے صحافیوں کے لیے ماہ اگست کے دوسرے ہفتے میں ہی میڈیا سینٹر قائم کیا جو فی الوقت محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں قائم ہے لیکن اس میں دستیاب سہولیات ناکافی ہیں اور صحافیوں کو گوناگوں مشکلات درپیش ہیں۔
صحافیوں کی طرف سے کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی بحالی کرنے کی اپیلوں اور احتجاجوں کے باوصف بھی فی الوقت صورتحال جوں کی توں ہی ہے اور صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ کام کاج کی انجام دہی کے لئے محکمہ اطلاعات کا ہی رخ کرنا پڑرہا ہے۔
طلبا اور تاجروں کی سہولیات کے لئے انتظامیہ نے ضلع صدر مقامات پر این آئی اسی سینٹروں کا قیام عمل میں لایا لیکن اس کے باوجود بھی طلبا کو اسکالر شپ فارم، داخلہ فارم یا امتحانی فارم جمع کرنے میں گوناگوں مشکلات کا سامنا ہے اور تاجروں کو ایسی دقتوں کے دریا درپیش ہیں کہ جن کو پار کرنے سے وہ قاصر ہیں۔
وادی میں ریل سروس کو بھی پانچ اگست سے قبل ہی بند کیا گیا تھا جس کو بعد ازاں قریب ساڑھے تین ماہ کے بعد مرحلہ وار طریقے سے بحال کیا گیا۔ وادی میں سن 2016 میں بھی ریل خدمات قریب پانچ ماہ تک معطل رکھی گئیں تھیں۔
وادی میں جاری غیر یقینی صورتحال اور انٹرنیٹ کی معطلی کے بیچ ہی جموں کشمیر سٹیٹ بورڈ آف ایجوکیشن نے دسویں اور بارہویں جماعت کے لئے امتحانات کا انعقاد ماہ اکتوبر سے ہی عمل میں لایا۔
وادی کے تعلیمی اداروں میں پانچ اگست سے لے کر ماہ اکتوبر میں امتحانات منعقد ہونے تک تعلیی سرگرمیاں بحال نہیں ہوسکیں جس کے باعث طلبا نصف سے بھی کم ہی نصاب مکمل کرسکے لیکن امتحانات پورے نصاب کے لئے گئے جس پر طلبا اور والدین سیخ پا ہوئے۔
وادی میں نامساعد حالات کے بیچ حراست میں لئے گئے افراد کو اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ آئندہ کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں حصہ لینے سے اجتناب کریں گے اور ایک بار جب سیاسی لیڈروں کے خواتین احباب و اقارب نے سری نگر میں واقع پرتاب پارک میں سیاسی لیڈروں کی رہائی کے متعلق احتجاج کرنے کی کوشش کی تو انہیں حراست میں لیا گیا اور 'گزشتہ را صلواۃ آئندہ را احتیاط' کے فارمولہ کے تحت ہی رہا کیا گیا۔
وادی میں پانچ اگست کے بعد عسکریت اور سیکورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ ذرائع کے مطابق سال 2019 کے پہلے سات ماہ میں 136جنگجو ہلاک جبکہ پانچ اگست کے بعد اب تک صرف 18 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔
وادی میں جاری غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر انتظامیہ نے پہلی بار میوہ باغ مالکان کی سہولیت کے لئے یہاں کی منڈیوں میں ہی مارکیٹ انٹروینشن اسکیم متعارف کی۔
ماہ ستمبر کی 16 تاریخ کو نیشنل کانفرس کے صدر اور تین بار جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائر ہونے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر عائد پی ایس اے عائد کیا گیا جس میں ماہ دسمبر میں مزید توسیع کی گئی۔ یاد رہے کہ داکٹر فاروق عبداللہ گپکار میں واقع اپنی رہائش گاہ جس کو سب جیل قرار دیا گیا ہے، پر نظر بند ہیں۔
رواں برس کے 31 اکتوبر کو جموں وکشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت باضابطہ طور پر دو حصوں میں منقسم ہوکر 'یونین ٹریٹری آف جموں وکشمیر' اور 'یونین ٹریٹری آف لداخ' میں تبدیل ہوگئی۔ اسی دن جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر اور لداخ کے لیہہ میں منعقد ہونے والی دو الگ الگ تقاریب میں گریش چندر مرمو اور رادھا کرشنا ماتھر نے بالترتیب 'جموں وکشمیر' اور 'لداخ' نامی یونین ٹریٹریز کے پہلے لیفٹیننٹ گورنر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ جموں وکشمیر کے آخری گورنر ستیہ پال ملک جو اپنے بیانات کی وجہ سے ہر وقت خبروں میں رہتے تھے، کو گوا بھیجا گیا۔
وادی میں نامساعد حالات کے چلتے تمام تر سیاسی سرگرمیاں مفقود ہونے کے بیچ جموں کشمیر کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار منعقد ہونے والے بلاک ترقیاتی کونسل انتخابات منعقد ہوئے جن میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اورکانگریس نے شمولیت نہیں کی۔ انتخابات میں توقعات اور چہ میگوئیوں کے برعکس آزاد امیدوارں نے میدان مار لیا۔ 316 سیٹوں میں سے 217 نشستوں پر آزاد امیدواروں نے ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔
ماہ نومبر میں 'گاؤں کی اور' پروگرام کا دوسرا مرحلہ منعقد کیا گیا اس پروگرام کے دوران جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے بدسگام میں نامعلوم بندوق برادوں کی طرف سے حملے میں محکمہ زراعت کا ایک افسر اور ایک سرپنچ ہلاک جبکہ دو دیگر زخمی ہوئے۔
ماہ دسمبر میں پائین شہر کے نوہٹہ علاقے میں واقع وادی کے سب سے بڑے اور قدیم ترین معبد تاریخی جامع مسجد میں 19 ہفتوں کے بعد نماز جمعہ اداکی گئی۔ پانچ اگست کے بعد جامع میں نماز جمعہ ادا نہیں کی جارہی تھی حسن اتفاق ہے کہ سال 2016 میں بھی معروف جنگجو کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھی جامع میں 19 ہفتوں کے بعد نماز جمعہ کی ادائیگی ممکن ہوئی تھی۔
وادی میں سال 2018 میں حریت اور تجارتی انجمنوں کے لیڈروں کے خلاف این آئی اے اور انفورسمنٹ ایجنسیوں کی طرف سے کارروائیوں کا سلسلہ سال 2019 میں بھی جاری رہا۔ حریت کانفرنس (ع) کے چیئرمین میر واعظ عمر فارروق کو این آئی اے کی طرف سے دو بار نوٹسز موصول ہوئیں جس کے پیش نظر وہ کئی حریت لیڈروں اور عوامی ایکشن کمیٹی کے لیڈروں کے ہمراہ نئی دلی میں این آئی اے کے سامنے حاضر ہوئے۔