ETV Bharat / state

DySP lynching case : ماب لنچنگ کے ملزم کی احتیاطی حراست برقرار

author img

By

Published : Aug 2, 2023, 5:40 PM IST

سنہ 2017میں شب قدر کے موقع پر سرینگر کی جامع مسجد کے باہر ایک ڈی وائی ایس پی ہجومی تشدد کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔

ا
ا

سرینگر (جموں و کشمیر): ایک اہم فیصلے میں ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اینڈ لداخ نے 2017 میں سرینگر کے نوہٹہ علاقے میں ہوئے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی وائی ایس پی) کے لنچنگ معاملے میں ملزم کی احتیاطی حراست کو برقرار رکھا۔ اس کے مزید کئی بنیادوں پر نظر بندی کے حکم کو چیلنج کرنے والی ان کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا۔

جسٹس ایم اے چودھری کی عدالت نے بدھ کو درخواست گزار اور جواب دہندگان کے دلائل سننے کے بعد اس درخواست کو مسترد کر دیا جب کہ یہ مشدہ کیا گیا کہ ’’اس معاملے میں درخواست گزار کی دلیل میں کوئی قابلیت نہیں ہے۔‘‘ اپنی درخواست میں ملزم عمران نبی وانی نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے 8 ستمبر 2022 کو ضلع مجسٹریٹ سرینگر کی جانب سے جاری کیے گئے نظر بندی کے حکم پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا۔ ’’حراستی اتھارٹی کی جانب سے نظر بندی کے احکامات سے ظاہر کیا گیا ہے کہ میں نوہٹہ میں ڈی وائی ایس پی لنچنگ معاملے کا مرکزی ملزم پایا گیا تھا۔‘‘ تاہم، درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ حراست میں لینے والی اتھارٹی نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ اسے لنچنگ کیس میں ضمانت دی گئی تھی۔

ملزم نے اس بنیاد پر بھی فیصلے کا مقابلہ کیا کہ ان کے خلاف الزامات غلط ہیں اور اس نے 2017 کے بعد سے کسی نئی کارروائی میں حصہ نہیں لیا ہے۔ درخواست گزار نے مزید الزام عائد کیا کہ حراست میں لینے والی اتھارٹی نے صرف پولیس کے ڈوزیئر پر انحصار کیا اور آزادانہ طور پر حراست کی بنیاد تیار نہیں کی۔ عدالت نے اس دوران نشاندہی کی کہ ’’ایسے لوگوں (جو کسی بھی الزام میں جیل میں ہیں) کی روک تھام کے لیے حراست میں رکھنا اکثر لازمی نہیں ہوتا ہے، تاہم اس اہم جرم کے لیے معافی یا سزا سنائے جانے کے بعد اس شخص کو بانڈ پر رہا کیا جا سکتا ہے۔‘‘

عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ قید کا جواز اور حراست میں لینے والے حکام کا اطمینان ان شواہد پر مبنی تھا جس میں ڈی وائی ایس پی لنچنگ کیس میں وانی کی شمولیت کو ظاہر کیا گیا تھا۔ عدالت نے اس حقیقت پر مزید روشنی ڈالی کہ ’’احتیاطی حراست قابل سزا نہیں ہے، جس کا مقصد معاشرے کی حفاظت کرنا ہے۔‘‘

مزید پڑھیں: Mob Lynching In Saran سارن میں ٹرک ڈرائیور ہجومی تشدد کا شکار

دلچسپ امر ہے کہ حراست کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ 22 اور 23 جون 2017 کی درمیانی رات کو ایک ہجوم نے جموں و کشمیر ریاست کے یونین آف انڈیا کے ساتھ الحاق کے خلاف اور یونین آف انڈیا کے خلاف نعرے لگائے اور محمد ایوب پنڈت نامی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس افسر کو مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ جامع مسجد سرینگر میں شب قدر کے موقع پر ایک بڑے اجتماع کی توقع میں سیکورٹی ونگ کا ایک پولیس افسر تعینات تھا تاکہ وہاں پر تعینات اہلکاروں کی نگرانی کی جا سکے۔ تاہم ملک دشمن عناصر نے افسر پر حملہ کیا، اس کی سروس پستول چرا لی اور اسے بے رحمی سے مارا یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو کر موت کی آغوش میں چلا گیا۔ عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ملزمان ’’وہیں نہیں رکے بلکہ غیر انسانی طریقے سے مقتول کی لاش کو مسجد کے ساتھ والے علاقے سے باہر گھسیٹ کر لے گئے، اس کے کپڑے پھاڑے اور لاش کو کپڑوں اور دیگر سامان کے بغیر (ایسے ہی) چھوڑ دیا۔‘‘ اس سلسلے میں ایف آئی آر 51/2017 پولیس اسٹیشن نوہٹہ میں دفعہ 148، 392، 341، 302، 149 آر پی سی اور 13 غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت درج کی گئی تھی۔

سرینگر (جموں و کشمیر): ایک اہم فیصلے میں ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اینڈ لداخ نے 2017 میں سرینگر کے نوہٹہ علاقے میں ہوئے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی وائی ایس پی) کے لنچنگ معاملے میں ملزم کی احتیاطی حراست کو برقرار رکھا۔ اس کے مزید کئی بنیادوں پر نظر بندی کے حکم کو چیلنج کرنے والی ان کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا۔

جسٹس ایم اے چودھری کی عدالت نے بدھ کو درخواست گزار اور جواب دہندگان کے دلائل سننے کے بعد اس درخواست کو مسترد کر دیا جب کہ یہ مشدہ کیا گیا کہ ’’اس معاملے میں درخواست گزار کی دلیل میں کوئی قابلیت نہیں ہے۔‘‘ اپنی درخواست میں ملزم عمران نبی وانی نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے 8 ستمبر 2022 کو ضلع مجسٹریٹ سرینگر کی جانب سے جاری کیے گئے نظر بندی کے حکم پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا۔ ’’حراستی اتھارٹی کی جانب سے نظر بندی کے احکامات سے ظاہر کیا گیا ہے کہ میں نوہٹہ میں ڈی وائی ایس پی لنچنگ معاملے کا مرکزی ملزم پایا گیا تھا۔‘‘ تاہم، درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ حراست میں لینے والی اتھارٹی نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ اسے لنچنگ کیس میں ضمانت دی گئی تھی۔

ملزم نے اس بنیاد پر بھی فیصلے کا مقابلہ کیا کہ ان کے خلاف الزامات غلط ہیں اور اس نے 2017 کے بعد سے کسی نئی کارروائی میں حصہ نہیں لیا ہے۔ درخواست گزار نے مزید الزام عائد کیا کہ حراست میں لینے والی اتھارٹی نے صرف پولیس کے ڈوزیئر پر انحصار کیا اور آزادانہ طور پر حراست کی بنیاد تیار نہیں کی۔ عدالت نے اس دوران نشاندہی کی کہ ’’ایسے لوگوں (جو کسی بھی الزام میں جیل میں ہیں) کی روک تھام کے لیے حراست میں رکھنا اکثر لازمی نہیں ہوتا ہے، تاہم اس اہم جرم کے لیے معافی یا سزا سنائے جانے کے بعد اس شخص کو بانڈ پر رہا کیا جا سکتا ہے۔‘‘

عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ قید کا جواز اور حراست میں لینے والے حکام کا اطمینان ان شواہد پر مبنی تھا جس میں ڈی وائی ایس پی لنچنگ کیس میں وانی کی شمولیت کو ظاہر کیا گیا تھا۔ عدالت نے اس حقیقت پر مزید روشنی ڈالی کہ ’’احتیاطی حراست قابل سزا نہیں ہے، جس کا مقصد معاشرے کی حفاظت کرنا ہے۔‘‘

مزید پڑھیں: Mob Lynching In Saran سارن میں ٹرک ڈرائیور ہجومی تشدد کا شکار

دلچسپ امر ہے کہ حراست کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ 22 اور 23 جون 2017 کی درمیانی رات کو ایک ہجوم نے جموں و کشمیر ریاست کے یونین آف انڈیا کے ساتھ الحاق کے خلاف اور یونین آف انڈیا کے خلاف نعرے لگائے اور محمد ایوب پنڈت نامی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس افسر کو مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ جامع مسجد سرینگر میں شب قدر کے موقع پر ایک بڑے اجتماع کی توقع میں سیکورٹی ونگ کا ایک پولیس افسر تعینات تھا تاکہ وہاں پر تعینات اہلکاروں کی نگرانی کی جا سکے۔ تاہم ملک دشمن عناصر نے افسر پر حملہ کیا، اس کی سروس پستول چرا لی اور اسے بے رحمی سے مارا یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو کر موت کی آغوش میں چلا گیا۔ عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ملزمان ’’وہیں نہیں رکے بلکہ غیر انسانی طریقے سے مقتول کی لاش کو مسجد کے ساتھ والے علاقے سے باہر گھسیٹ کر لے گئے، اس کے کپڑے پھاڑے اور لاش کو کپڑوں اور دیگر سامان کے بغیر (ایسے ہی) چھوڑ دیا۔‘‘ اس سلسلے میں ایف آئی آر 51/2017 پولیس اسٹیشن نوہٹہ میں دفعہ 148، 392، 341، 302، 149 آر پی سی اور 13 غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت درج کی گئی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.