خدا نے انسانوں کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اب یہ انسان کا ہنر ہے کہ وہ اپنے وجود میں چھپی ہوئی ان صلاحیتوں کا کس حد تک پتہ لگا کر ان کو بروئے کار لا سکتا ہے۔
ضلع شوپیان کے پسماندہ علاقے چوون کیلر سے تعلق رکھنے والے مشتاق احمد پرے کو بچپن سے ہی گانا گانے اور ہارمونیم بجانے کا شوق تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا شوق بھی بڑھتا گیا۔ تاہم غریب خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ موسیقی کے ساز و سامان اپنے لیے نہیں خرید پائے جس کی وجہ سے وہ کافی مایوس ہیں۔
مشتاق احمد پرے نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'میں بچپن سے ہی گانا گانے کے ساتھ ساتھ ہارمونیم بجاتا ہوں اور آس پاس کے علاقوں کے کئی لوگ میری آواز اور ہارمونیم بجانے کے ہنر سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر گھر کی خستہ مالی حالت اور کوئی باقاعدہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ہنر گھر تک ہی محدود ہو کر رہ گیا اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔'
مشتاق احمد کے مطابق ان کے والد کے انتقال کے بعد گھر کی ساری ذمہ داریاں ان پر آن پڑیں اور گانا گانے، ہارمونیم بجانے سے ان کو کوئی آمدنی نہیں ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے وہ اب ڈرائیور کے طور پر کام کر رہے ہیں تاکہ ان کا گھر چل سکے لیکن انہیں نغموں کے ساتھ ساتھ ہارمونیم بجانے کا اتنا شوق ہے کہ یہ ہمیشہ ہارمونیم کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
مشتاق احمد پرے بچپن میں ریڈیو پر نشر ہونے والے نغمے دل لگا کر سنتے تھے پھر جب ٹیلی ویژن دیکھنا شروع کیا تو ان کا شوق بڑھ گیا اور بند کمرے میں گانے بجانے کی مشق کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے اپنے علاقے میں شادی بیاہ کی تقریبات میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا شروع کیا جسے لوگوں نے کافی پسند کیا۔
انہوں نے بتایا کہ 'مجھے اب تک اپنے علاقے سے باہر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع نہیں ملا ہے اور میں بڑے پلیٹ فارموں پر اپنے ضلع کی نمائندگی کرنا چاہتا ہوں۔'
مشتاق احمد نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ بھی ان کو بھر پور سپورٹ فراہم کرے تاکہ انہیں بڑے پلیٹ فارموں پر کام کر کے اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کا موقع مل سکے۔