ETV Bharat / state

کشمیری پنڈت کی آخری رسومات انجام دینے میں مسلمان پیش پیش رہے

جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں میں مقامی مسلمانوں نے ایک بار پھر مذہبی ہم آہنگی، اتحاد، انسانیت نوازی اور کشمیریت کی عمدہ مثال قائم کی ہے جہاں وہ ایک معمر کشمیری پنڈت کی آخری رسومات انجام دینے میں پیش پیش رہے۔ آخری رسومات میں درجنوں مرد و زن نے شرکت کی اور نم آنکھوں سے پنڈت کو رخصت کیا۔

کشمیری پنڈت کی آخری رسومات انجام دینے میں مسلمان پیش پیش رہے
کشمیری پنڈت کی آخری رسومات انجام دینے میں مسلمان پیش پیش رہے
author img

By

Published : Jul 23, 2020, 7:51 PM IST

ضلع شوپیاں کے زینہ پورہ کا یہ واحد پنڈت خاندان، اُن سینکڑوں کشمیری پنڈت خاندانوں میں سے ایک ہے جو گذشتہ تین دہائیوں کے نامساعد حالات کے دوران بھی کشمیر میں ہی مقیم رہا اور اپنے ہمسایہ مسلم برادری کے دُکھ سُکھ میں شامل رہا۔

کشمیری پنڈت کی آخری رسومات انجام دینے میں مسلمان پیش پیش رہے

جمعرات کی صبح جب اس خاندان کے سرپرست پنڈت کانت رام چل بسے، تو اس گاوں کے درجنوں مسلمان اُن کی آخری رسومات انجام دینے میں پیش پیش رہے۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ جمعرات کی صبح جب معمر پنڈت کانت رام کے گزر جانے کی خبر گاوں میں پھیل گئی تو درجنوں کی تعداد میں مرد و زن، بچے اور بوڑھے ان کے گھر پر پہنچ گئے۔

مقامی مسلمانوں نے نہ صرف اپنے پنڈت بھائیوں کے شانہ بشانہ ان کی آخری رسومات سرانجام دیں بلکہ اُن کی ارتھی کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کے علاوہ چتا کو آگ لگانے کے لئے درکار لکڑی اور دوسری چیزیں مہیا کیں۔

کانت رام کے ایک مسلم پڑوسی نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے ایک دوسرے کے دُکھ سکھ میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: 'ہم مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ ایک دوسرے کے پاس آتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر خوشی اور غم کے موقع پر ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑتے ہیں۔ ہم کام بھی مل کر ہی کرتے ہیں'۔ ان کے پسماندگان میں ایک فرزند رمیش کمار، جو پیشے سے ڈاکٹر ہیں، اور چار بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹر رمیش کا شوپیاں میں ہی اپنا کلینک ہے۔

واضح رہے کہ کشمیر میں سال 1990 میں مسلح شورش شروع ہونے کے ساتھ ہزاروں پنڈت اپنے گھر چھوڑ کر بھارت کے مختلف حصوں میں مقیم ہوگئے۔ تاہم سینکڑوں کنبوں نے ہجرت نہیں کی اور یہیں مقیم رہے۔

اننت ناگ: مٹن علاقہ بھائی چارے کی مثال

ضلع شوپیاں کے زینہ پورہ کا یہ واحد پنڈت خاندان، اُن سینکڑوں کشمیری پنڈت خاندانوں میں سے ایک ہے جو گذشتہ تین دہائیوں کے نامساعد حالات کے دوران بھی کشمیر میں ہی مقیم رہا اور اپنے ہمسایہ مسلم برادری کے دُکھ سُکھ میں شامل رہا۔

کشمیری پنڈت کی آخری رسومات انجام دینے میں مسلمان پیش پیش رہے

جمعرات کی صبح جب اس خاندان کے سرپرست پنڈت کانت رام چل بسے، تو اس گاوں کے درجنوں مسلمان اُن کی آخری رسومات انجام دینے میں پیش پیش رہے۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ جمعرات کی صبح جب معمر پنڈت کانت رام کے گزر جانے کی خبر گاوں میں پھیل گئی تو درجنوں کی تعداد میں مرد و زن، بچے اور بوڑھے ان کے گھر پر پہنچ گئے۔

مقامی مسلمانوں نے نہ صرف اپنے پنڈت بھائیوں کے شانہ بشانہ ان کی آخری رسومات سرانجام دیں بلکہ اُن کی ارتھی کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کے علاوہ چتا کو آگ لگانے کے لئے درکار لکڑی اور دوسری چیزیں مہیا کیں۔

کانت رام کے ایک مسلم پڑوسی نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے ایک دوسرے کے دُکھ سکھ میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: 'ہم مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ ایک دوسرے کے پاس آتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر خوشی اور غم کے موقع پر ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑتے ہیں۔ ہم کام بھی مل کر ہی کرتے ہیں'۔ ان کے پسماندگان میں ایک فرزند رمیش کمار، جو پیشے سے ڈاکٹر ہیں، اور چار بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹر رمیش کا شوپیاں میں ہی اپنا کلینک ہے۔

واضح رہے کہ کشمیر میں سال 1990 میں مسلح شورش شروع ہونے کے ساتھ ہزاروں پنڈت اپنے گھر چھوڑ کر بھارت کے مختلف حصوں میں مقیم ہوگئے۔ تاہم سینکڑوں کنبوں نے ہجرت نہیں کی اور یہیں مقیم رہے۔

اننت ناگ: مٹن علاقہ بھائی چارے کی مثال

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.