جنوبی کشمیر کے شوپیان ضلع کے نادی مرگ علاقے کی ایک بستی جس میں کشمیری پنڈتوں کا تقریباً 11 کنبہ آباد تھا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ کچھ ہی لمحوں میں اس بستی پر قیامت برپا ہوگی اور یہ بستی لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گی۔
وہ سال 2003 تھا اور 23-24 مارچ کی درمیانی شب تھی جب اس بستی میں مقیم کشمیری پنڈت اپنے گھروں میں آرام فرما تھے کہ اچانک چند نامعلوم بندوق برداروں نے پوری بستی کو گھیرے میں لے لیا اور انہیں گھروں سے باہر نکال کر ایک جگہ جمع کیا اور پھر اندھا دھند فائرنگ کرکے 24 کشمیری پنڈتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہلاک ہونے والے کشمیری پنڈتوں میں 11 خواتین اور دو بچے بھی شامل تھے۔
اس حملے کے بعد گرچہ یہاں مقیم کشمیری پنڈت دوسرے مقامات پر منتقل ہوگئے، تاہم 18 برس گزرنے کے بعد بھی اس قتل عام کا خوف اب بھی ذہنوں میں تازہ ہے۔
یہاں کے مسلمان بھی اس سانحہ سے دلبرداشتہ ہوئے تھے۔ انہوں نے ان مظلوم کشمیری پنڈتوں کو ہر ممکن مدد بھی فراہم کرائی اور ان کی ہر طرح سے دلجوئی بھی کی اور ان کے غموں میں شریک بھی ہوئے۔
مقامی مسلمان چاہتے ہیں کہ کشمیری پنڈت واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئیں۔ نادی مرگ کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہاں مسلمان اور پنڈت برادری ایک ساتھ رہا کرتے تھے۔ آج انہیں ان کے دور رہنے سے اکیلا پن محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس دلدوز حملے کے باوجود بھی کہیں ایسے کشمیری پنڈت اور سکھ خاندان ہیں جو یہاں ابھی بھی خوشی خوشی رہ رہے ہیں۔ اب حالات تبدلیل ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آئے دن یہاں ہندو مسلم بھائی چارے کی مثالیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔