جماعت اسلامی ہند راجستھان کے ریاستی جنرل سکریٹری ڈاکٹر اقبال صدیقی کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے جو لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سے 21 کے اضافے کی تجویز ہے، اس کا بل جب پاس ہوگا تب کوئی بات سامنے آئے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے جو 18 برس کی عمر تھی اس پر پورا عمل ہوا نہیں بلکہ اس سے قبل ہی بچیوں کی شادی کر دی جاتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ہر برس راجستھان میں تیج کے موقع پر کافی کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کردی جاتی ہے، جو پہلے سے قانون بنا ہوا ہے وہ بھی پوری طرح سے پابندی کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکا ہے۔
صدیقی کا کہنا ہے کہ قانون بنانے سے کسی پریشانی کا حل نہیں نکل جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم قدرتی طور پر دیکھیں تو جو شادیاں زیادہ عمر میں ہوتی ہیں اس میں کوئی نہ کوئی نقصان ضرور ہوتا ہے۔ مثلا بچوں کا دیر سے پیدا ہونا۔ آپسی تعلقات اچھے نہ ہونا۔
انہوں نے امریکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دیر سے شادی ہونے کے باعث شادی کی اہمیت لوگوں کے دل سے نکل جاتی ہے۔ وہاں لیو ان میں رہنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ناجائز بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ وہاں ہر تیسری یا چوتھی اولاد ناجائز ہے۔ یہ سروے میں بتایا گیا ہے۔
صدیقی کا کہنا ہے کہ دیر سے حاملہ ہونے کی صورت میں خواتین کو مزید پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ اکثر کیسز میں بچہ کے ساتھ زچہ کو بھی جان گنوانی پڑتی ہے۔ لہذا ہم لوگوں کو قدرت کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے قدرت کے ساتھ کسی طرح سے کوئی چھیڑ کھانی نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے اسلامی تعلیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں نکاح کی کوئی عمر طے نہیں ہے لیکن جنسی تعلقات کے لئے بالغ ہونا ضروری ہے۔ صدیقی کا کہنا ہے کہ جو بھی قانون یا بل لایا جا رہا ہے اس کے پیچھے نیت صاف ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ اکثریت کی بنیاد پر کوئی ایسا قانون بنا دیا جائے۔