جلیان والا سانحے کی سویں برسی پر ای ٹی وی بھارت کی خصوصی پیشکش۔
یہ واقعہ برطانوی حکمرانوں کی ظالمانہ ذہنیت اور جابرانہ فکر کی عکاس ہے۔
چند روز قبل برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مئے نے اس سانحہ پر اظہار افسوس تو کیا لیکن معذرت پیش نہیں کی۔
سنہ 1919 میں برطانوی سامراج نے آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے رولٹ ایکٹ پاس کیا، اس ایکٹ کے تحت حکومت کسی بھی شخص کو محض شبے کی بنیاد پر گرفتار کر سکتی تھی۔
اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاج ہو رہا تھا اور پنجاب اس کا مرکز بن چکا تھا۔
ان دنوں پنجاب کا گورنر سر مائیکل فرانسس او ڈائر تھا جس نے پنجاب میں جلسے جلوس اور مظاہروں پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ حکم کی نافرمانی کر نے والوں کی سرکوبی کے لیے اس نے ریگنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر نامی ایک سخت گیر اور ظالم بریگیڈیئر جنرل کو مامور کردیا۔
دس اپریل 1919 کو رولٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں تحریک آزادی کے دو رہنما سیف الدین کچلو اور ستیہ پال کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان رہنماوں کی گرفتاری سے انگریز مخالف تحریک کو مزید ہوا ملی۔
تیرہ اپریل کو بیساکھی تھی، اس تہوار کو منانے والے ہزاروں لوگ احتجاج میں بھی شامل ہونے کے لیے جلیاں والا باغ میں جمع ہوئے۔
جلیاں والا باغ میں داخلےکے لیے ایک تنگ گلی تھی۔ جنرل ڈائر اپنے سپاہیوں کے ساتھ اس گلی پر پہنچا اور راستہ بند کر دیا۔ تاریخ کا یہ عجب منظر تھا۔ ایک طرف نہتے لوگوں کا مجمع، اور دوسری طرف جنرل ڈائر کے سپاہی بندوق اور سنگینوں سے لیس تھے۔
ڈائر کا حکم تھا کہ جہاں مجمع جہاں زیادہ لگا ہوا ہے وہیں فائرنگ کی جائے اور پھر حکم ملتے ہی سپاہیوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔
ہر طرف چیخ و پکار تھی، بہت سے لوگ جان بچانے کے لیے پاس کے کوئیں میں کود پڑے۔ بعد میں کوئیں سے 120 لاشیں نکالی گئیں۔
یہ فائرنگ اس وقت تک جاری رہی جب تک گولیاں ختم نہیں ہوگئیں۔
برطانوی حکومت نے جنرل ڈائر کی سرزنش کرنے کے بجائے اس کی تعریف کی۔ لیکن بعد میں سخت احتجاج کے بعد جنرل ڈائر کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا اور انہیں واپس انگلینڈ بھیج دیا گیا۔
آزادی کے بعد بھارتی حکومت نے جلیاں والے سانحے کو بھارت کی جنگ آزادی میں فیصلہ کن موڑ قرار دیا اور وہاں ایک یادگار تعمیر ہوئی۔ اس میموریل کا افتتاح سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے کیا تھا۔