ان سات عام شہریوں میں ایک نوجوان توصیف احمد ساکنہ وُرچرسُو بھی تھے۔
توصیف شادی شدہ تھے اور وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ الگ سے اپنا گھر بسا رہا تھا۔لیکن سیرنو تصادم میں ہلاک ہونے کے بعد توصیف کی بیوی اور دو بچوں کا کو ئی سہارا نہیں رہا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ توصیف کی بیوی کو سُسرال والوں نے بھی مایوسی کے علاوہ کچھ نہ دیا۔ انہوں نے اسے جاٸیداد دی اور نہ زمین۔ توصیف کی اہلیہ دلشادہ کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔
دلشادہ کے پاس سر چھپانے کے لیے گھر نہیں تو وہیں گھر چلانے کے لئے سازوسامان بھی نہیں ہے۔
دلشادہ ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنے دو بچوں کے ساتھ زندگی گذاررہی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے میکے والے بھی غربت سے نچلی سطح کی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بھی اُس کی مدد کرنے میں کوٸی رول ادا نہیں کر سکتے۔
دلشادہ اپنے بچوں کو پڑھانا لکھانا چاہتی ہے لیکن ان کے پاس وسائل نہیں ہیں وہ چاہتی ہے کہ حکام اور انتظامیہ اس کی مدد کے لئے سامنے آئے تاکہ وہ بھی اپنے روزمرہ کی ضروریات پورا کر سکے اور اپنے بچوں کو تعلیم کے نور سے آراستہ کر سکیں۔