ETV Bharat / state

پلوامہ حملے کی دوسری برسی پر کشمیر میں کیا بدلا؟ - حملے میں ہلاک ہوا

پلوامہ حملے کے بعد جموں و کشمیر میں زمینی سطح پر کیا کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں، اس تعلق سے ای ٹی وی بھارت نے مقامی لوگوں سے بات کی جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا۔

letpora terror
پلوامہ حملے
author img

By

Published : Feb 14, 2021, 10:02 PM IST

دو برس قبل 14 فروری کو وادی کشمیر کے لیتہ پورہ میں ایک خطرناک خودکش حملے میں سی آر پی ایف کے چالیس جوان ہلاک ہوئے تھے۔ حملہ آور جس کی شناخت عادل احمد ڈار ساکن پلوامہ جو کہ جیش محمد نامی عسکری تنظیم کے ساتھ وابستہ بتایا جاتا تھا، بھی اس حملے میں ہلاک ہوا تھا۔ یہ حملہ وادی کشمیر میں سب سے خطرناک حملہ قرار دیا جاتا ہے۔

پلوامہ حملے

اس حملے کے بعد بھارت ۔ پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملا تھا اور جنگ کی نوبت آگئی تھی۔

آج پلوامہ حملے کی دوسری برسی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی سمیت دیگر لیڈران نے خراج عقیدت پیش کیا، وہیں کشمیر میں بھی لیتہ پورہ کے مقام پر آج سی آر پی ایف کے ذریعے ایک پر وقار تقریب منعقد کی گئی جس میں آئی جی، سی آر پی ایف دیپک رتن بطور مہمان خصوصی شامل ہوئے اور اس سانحے میں ہلاک ہوئے اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔

تاہم لیتہ پورہ حملے کے بعد یہاں زمینی سطح پر کیا کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں، اس تعلق سے ای ٹی وی بھارت نے چند لوگوں سے بات کی جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا۔

مقامی شخص مدثر منظور نے بتایا کہ 'دو برس قبل ہوئے اس حملے کی یادیں ابھی بھی تازہ ہیں۔ وہ ایک خطرناک حملہ تھا جس میں چالیس جوانوں کو اپنی زندگیوں سے محروم ہونا پڑا تھا۔ تاہم اس حملے کے بعد قومی شاہراہ پر سکیورٹی کو چوکس کر دیا گیا ہے۔ کھبی کبھار یہ چوکسی ہمارے لیے بھاری پڑتی ہے۔ کیونکہ پلوامہ حملے کے بعد جب بھی کانوائے اس راستے پر چلتی ہے تو عام گاڈیوں کو چلنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ بعض اوقات ایمبولینس اور دیگر ضروری خدمات کی گاڑیوں کو بھی روکا جاتا ہے جو کہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم سکیورٹی کو لے کر سوال نہیں کھڑے کرتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ کانوائے کے وقت بھی ایمبولنس گاڑیوں کو چلنے کی اجازت دی جائے'۔

مقامی شخص نور محمد نے بتایا کہ 'دو سال قبل آج ہی کے دن جب یہ حملہ ہوا تھا تب میں دکان پر بیٹھا تھا جب دھماکہ ہوا۔ سارا علاقہ لرز گیا تھا اور ہم جان بچانے کے لیے بھاگ گئے تھے۔ اس دھماکے سے ہماری دکانوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اس حملے کے بعد کئی ماہ تک صورتحال کشیدہ رہی۔ جس کی وجہ سے ہمارے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس کے بعد عالمی وباء کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار چوپٹ ہوا۔ اب گزشتہ دنوں سے کام میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: بڈگام : پلوامہ حملے میں ہلاک ہوئے جوانوں کو خراج عقیدت پیش

ایک تمل سیاح نے بتایا کہ وہ وادی کی سیر پر آیا تھا اور آج پلوامہ حملے کی دوسری برسی کے موقع پر وہ یہاں آکر ملک کے ان جانبازوں کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے، جنھوں نے ملک کی سالمیت کے لیے قربانیاں دے کر ایک مثال قائم کی ہے۔

الغرض پلوامہ حملے کی وجہ سے جہاں پورے ملک میں رہنے والے لوگوں کے دل رنجیدہ ہوئے وہیں کشمیری عوام کو بھی اس حملے کے بعد صبر آزما مشکلات کا سامنا رہا۔ تاہم دو سال گزرنے کے بعد یہ قوم اسی ہمت اور حوصلہ سے آگے بڑھ رہی ہے جس کے لیے یہ مشہور ہے۔

دو برس قبل 14 فروری کو وادی کشمیر کے لیتہ پورہ میں ایک خطرناک خودکش حملے میں سی آر پی ایف کے چالیس جوان ہلاک ہوئے تھے۔ حملہ آور جس کی شناخت عادل احمد ڈار ساکن پلوامہ جو کہ جیش محمد نامی عسکری تنظیم کے ساتھ وابستہ بتایا جاتا تھا، بھی اس حملے میں ہلاک ہوا تھا۔ یہ حملہ وادی کشمیر میں سب سے خطرناک حملہ قرار دیا جاتا ہے۔

پلوامہ حملے

اس حملے کے بعد بھارت ۔ پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملا تھا اور جنگ کی نوبت آگئی تھی۔

آج پلوامہ حملے کی دوسری برسی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی سمیت دیگر لیڈران نے خراج عقیدت پیش کیا، وہیں کشمیر میں بھی لیتہ پورہ کے مقام پر آج سی آر پی ایف کے ذریعے ایک پر وقار تقریب منعقد کی گئی جس میں آئی جی، سی آر پی ایف دیپک رتن بطور مہمان خصوصی شامل ہوئے اور اس سانحے میں ہلاک ہوئے اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔

تاہم لیتہ پورہ حملے کے بعد یہاں زمینی سطح پر کیا کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں، اس تعلق سے ای ٹی وی بھارت نے چند لوگوں سے بات کی جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا۔

مقامی شخص مدثر منظور نے بتایا کہ 'دو برس قبل ہوئے اس حملے کی یادیں ابھی بھی تازہ ہیں۔ وہ ایک خطرناک حملہ تھا جس میں چالیس جوانوں کو اپنی زندگیوں سے محروم ہونا پڑا تھا۔ تاہم اس حملے کے بعد قومی شاہراہ پر سکیورٹی کو چوکس کر دیا گیا ہے۔ کھبی کبھار یہ چوکسی ہمارے لیے بھاری پڑتی ہے۔ کیونکہ پلوامہ حملے کے بعد جب بھی کانوائے اس راستے پر چلتی ہے تو عام گاڈیوں کو چلنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ بعض اوقات ایمبولینس اور دیگر ضروری خدمات کی گاڑیوں کو بھی روکا جاتا ہے جو کہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم سکیورٹی کو لے کر سوال نہیں کھڑے کرتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ کانوائے کے وقت بھی ایمبولنس گاڑیوں کو چلنے کی اجازت دی جائے'۔

مقامی شخص نور محمد نے بتایا کہ 'دو سال قبل آج ہی کے دن جب یہ حملہ ہوا تھا تب میں دکان پر بیٹھا تھا جب دھماکہ ہوا۔ سارا علاقہ لرز گیا تھا اور ہم جان بچانے کے لیے بھاگ گئے تھے۔ اس دھماکے سے ہماری دکانوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اس حملے کے بعد کئی ماہ تک صورتحال کشیدہ رہی۔ جس کی وجہ سے ہمارے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس کے بعد عالمی وباء کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار چوپٹ ہوا۔ اب گزشتہ دنوں سے کام میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: بڈگام : پلوامہ حملے میں ہلاک ہوئے جوانوں کو خراج عقیدت پیش

ایک تمل سیاح نے بتایا کہ وہ وادی کی سیر پر آیا تھا اور آج پلوامہ حملے کی دوسری برسی کے موقع پر وہ یہاں آکر ملک کے ان جانبازوں کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے، جنھوں نے ملک کی سالمیت کے لیے قربانیاں دے کر ایک مثال قائم کی ہے۔

الغرض پلوامہ حملے کی وجہ سے جہاں پورے ملک میں رہنے والے لوگوں کے دل رنجیدہ ہوئے وہیں کشمیری عوام کو بھی اس حملے کے بعد صبر آزما مشکلات کا سامنا رہا۔ تاہم دو سال گزرنے کے بعد یہ قوم اسی ہمت اور حوصلہ سے آگے بڑھ رہی ہے جس کے لیے یہ مشہور ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.