گزشتہ برسوں میں ریاستی انتظامیہ اور مقامی رضاکار تنظیموں کی جانب سے بھانگ کی فصلیں تباہ کرنے کے علاوہ جنگلی بھانگ کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی گئی۔
تاہم رواں برس نامساعد حالات کے بعد جہاں بندشوں کی وجہ سے عام زندگی متاثر ہے۔ وہیں سرکاری دفاتر کے روز مرہ کے کام کاج پر بھی اس کا اثر پڑ رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جنوبی کشمیر کے پلوامہ اور اننت ناگ میں بھانگ اور خشخش کی کاشت بھی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جنگلی بھانگ کی پیداوار بھی خوب ہوتی ہے۔
رواں برس انتظامیہ اور مقامی رضاکاروں کی جانب سے اس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے نتیجے میں جنگلی بھانگ کی پیداوار بڑھ گئی ہے۔
ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے مولوی علی محمد نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ 'جنگلی بھانگ کی زیادہ پیداوار نوجوانوں کو نشے کی دعوت دے رہی ہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'نشے کی لت میں مبتلا نوجوانوں کو اس گندگی سے باہر نکالنے اور جنگلی بھانگ کو تباہ کرنے میں انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مقامی افراد، فلاحی تنظیموں اور اداروں کو ہی نہیں بلکہ ہر فرد کو اس کے خلاف اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔'