پی ڈی پی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ پولیس نے لاوے پورہ تصادم میں ہلاک کئے گئے مبینہ عسکریت پسند اطہر مشتاق وانی کے والد مشتاق احمد وانی پر ان کے بیٹے کی لاش کو واپس کرنے کے مطالبے پر مقدمہ درج کیا ہے-
محبوبہ مفتی نے ٹویٹر پر لکھا کہ 'بیٹے کو ایک مبینہ فرضی جھڑپ میں کھونے کے بعد، اطہر مشتاق کے والد کے خلاف لاش کی واپسی کا مطالبہ کرنے اور پُر امن احتجاج کرنے پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ "نیا کشمیر" کے باشندے ناقص اور سخت دل انتظامیہ سے اب سوال بھی نہیں پوچھ سکتے ہیں۔ یہاں لوگوں کو زندہ لاش بنا کر رکھا گیا ہے-'
مقدمہ درج کرنے کے معاملے پر پولیس کی طرف سے کوئی تفصیل یا تصدیق نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اطہر کے لواحقین کی طرف سے تصدیق ہوئی ہے-
ادھر ذرائع کے مطابق گزشتہ روز کچھ نامعلوم افراد نے پلوامہ کے بیلو علاقہ کی مسجد میں ایک خط مولوی صاحب کو سونپا تھا جس کے بعد پولیس نے متعلقہ مسجد کے مولوی اور دیگر چند افراد کو پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا۔ ابتدائی تفتیش کے بعد دیگر افراد کو جانے کی اجازت دی گئی لیکن مولوی کو پولیس لائن پلوامہ میں حراست میں رکھا گیا ہے۔ اب تک واضح نہیں ہو پایا ہے کہ مزکورہ خط میں کیا لکھا تھا اور یہ کس نے لکھا تھا۔ یہ بھی صاف نہیں ہے کہ یہ خط کس موضوع پر لکھا گیا تھا تاہم شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ خط اطہر مشتاق کی ہلاکت سے منسلک تھا۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے سرینگر کے لاوے پورہ میں ایک تصادم میں تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا تھا، تاہم نوجوانوں کے لواحقین نے کہا کہ وہ تینوں معصوم تھے اور انکو فرضی چھڑپ میں فوج نے ہلاک کیا تھا-
یہ بھی پڑھیں: لاوے پورہ انکاؤنٹر: ہلاک شدہ نوجوانوں کے اہل خانہ کا ایس آئی ٹی تحقیقات کا مطالبہ
ان کی شناخت پلوامہ ضلع کے اطہر مشتاق وانی، اعجاز مقبول گنائی اور شوپیان کے زبیر لون کے طور ہوئی تھی-
ان تینوں کو پولیس نے گاندربل کے سنہ مرگ علاقے میں سپرد خاک کیا تھا۔ تاہم لواحقین نے اس معاملے میں تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی لاشیں ان کے سپرد کی جائیں تاکہ وہ ان کی آخری رسومات انجام دے سکیں-
اطہر مشتاق کے والد اور لواحقین نے ان کے آبائی گاؤں بیلو پلوامہ میں گزشتہ ماہ پر امن احتجاج کیا تھا-