ریاست مہاراشٹر کے تمام مذہبی مقامات یعنی مساجد و منادر، خانقاہیں اور مذہبی مقامات کو دوبارہ کھولنا ابھی مشکل ہے، اس لئے عقیدت مندوں کو مذہبی مقامات کے کھلنے کا مزید اتنظار کرنا ہوگا۔
جس کے سبب مساجد، منادر اور خانقاہوں کے ذمہ داران، علماء کرام اور عمائدین شہر نے سخت اعتراضات درج کئے ہیں اور ریاستی سرکار کے داخل کردہ حلف نامہ پر بھی اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے۔
بامبے ہائی کورٹ میں ریاستی حکومت نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر مذہبی مقامات و منادر کو کھولا گیا تو اس سے کورونا وباء کے پھیلاؤ کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
اس لئے ابھی مذہبی مقامات کھولنے پر فیصلہ محفوظ رکھا گیا ہے۔
ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ میں داخل کردہ اپنے حلف نامہ میں واضح کیا ہے۔
ابھی مذہبی مقامات کھولنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوگا۔
جین مندر ٹرسٹ نے 15 سے 23 اگست تک مندر میں جا کر پوجا پاٹ کی اجازت طلب کی تھی۔
اس کے بعد ہی دیگر منادر نے بھی منادر میں پوجا پاٹ کی اجازت طلب کی تھی اور ایڈوکیٹ پرکاش شاہ کے معرفت رٹ پٹیشن داخل کی گئی تھی۔
ہائی کورٹ میں یہ دلیل دی گئی کہ جم خانوں سے لے کر بیوٹی پارلر اور حجامت خانہ تک کو اجازت دی گئی ہے، وہ احتیاطی اقدامات کے ساتھ اپنی دکانیں شروع کر سکتے ہیں۔
صرف مذہبی مقامات کو کیوں اجازت نہیں دی گئی ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرکزی سرکار نے مارچ سے لے کر 8 جون 2020 تک گائڈ لائن جاری کی تھی لیکن اب بھی ریاستی سرکار کے کچھ وزراء ادھو ٹھاکرے کو گمراہ کر رہے ہیں۔
رضا اکیڈمی کے روح رواں سعید نوری نے بتایا کہ جس طرح سے بازاروں کو کھولا گیا ہے اور شادیوں کیلئے شرائط کے ساتھ اجازت دی گئی ہے، اسی طرز پر مساجد اور عبادت گاہوں کو بھی اجازت دی جائے تاکہ مسلمان مساجد میں نمازیں پنج گانہ اور عبادتوں کا اہتمام کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو سرکار شادیوں اور دیگر تقریبات کو اجازت دیتی ہے۔
دوسری طرف صرف عبادتگاہوں پر پابندی عائد کر تی ہے۔
یہ دو رخی پالیسی ہے ایسے میں سرکارکو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے
انہوں نے کہا کہ تمام بازار اور دکانیں کھل گئی ہیں صرف عبادت گاہوں کے کھلنے پر اعتراض کیوں ہے۔
حاجی علی اور ماہم درگاہ کے مینیجنگ ٹرسٹی سہیل کھنڈوانی نے بتایا کہ ایک طرف بازاروں کو کھول دیا گیا ہے۔
صرف مذہبی مقامات پر پابندیاں کیوں؟ سرکار پر ایک مرتبہ عوام کو اعتماد نہیں ہے۔
تاہم اللہ پر تو اعتماد ہے وہ عبادت و ریاضت کرتے ہیں اور کورونا وائرس جیسے حالات میں امید ہی سب کچھ ہے۔
اس لئے کہا جاتا ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے اسی لئے عوام کی امید جو اللہ پر ہے اسے قائم رکھا جائے اور یہ عقیدہ کا معاملہ ہے ہر کسی کا اپنا عقیدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ خانقاہیں عبادت گاہیں اور دیگر مذہبی مقامات کے بند ہونے سے یہاں کے مالی حالات دشوار گزار ہوگئے ہیں۔
اب مذہبی مقامات کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
کیونکہ درگاہوں, مساجد سمیت مذہبی مقامات میں عطیات نہیں آرہے ہیں۔
ان کے اخراجات تو ختم نہیں ہوئے ہیں۔
یہاں مجاور سے لے کر دیگر خادموں کی تنخواہیں عبادتگاہوں کی بجلی اور پانی کا بل سمیت دیگر اخراجات میں حکومت نے کوئی رعایت نہیں دی ہے۔
جب کہ سرکار کو تو درگاہوں اور مذہبی مقامات کو امداد فراہم کرنا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کورونا وائرس جیسے حالات میں تو عوام میں عبادت کا جنون پیدا ہوگیاہے۔
یہ بھی پڑھیے:اورنگ آباد میں کورونا وائرس کی تازہ تفصیلات
ہر کوئی اپنے رب کی حمد و ثنا میں مشغول ہے تو ایسی سنگین صورتحال میں کیا مساجد عبادتگاہوں اور خانقاہوں کو دوبارہ کھولنے پر حکومت کو پیش قدمی کی ضرورت نہیں ہے۔
اس لئے ہم مطالبہ کر تے ہیں کہ مساجد، خانقاہوں کے ساتھ تمام مذہبی مقامات کو دوبارہ کھولا جائے تاکہ لوگوں میں پھیلی مایوسی کم ہو۔
ان کا اعتماد و اعتقاد اللہ اور اس کے ولیوں پر مضبوط ہو۔