ETV Bharat / state

ہم 2020 کی مردم شماری کے خلاف نہیں ہے:جمیعت علماء ہند

جمیعت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر 2020 کی مردم شماری ہو بہو سال 2010 کی مردم شماری کےجیسے منعقد کی جائے اور اس کا تعلق موجودہ این پی آر سے نہ ہو تب جمیعت ہند اس کی مخالفت نہیں کریں گی۔

We are not against 2020 censu
ہم 2020 کی مردم شماری کے خلاف نہیں ہے:جمیعت علماء ہند
author img

By

Published : Feb 21, 2020, 1:46 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 1:46 AM IST

ممبئی میں منعقد پریس کانفرنس کے دوران جمیعت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ملک کی مسلم آبادی مردم شماری کی مخالفت نہیں کر رہی ہے، لیکن 2020 کی مردم اسی طرح ہونی چاہیے جیسے سال 2010 میں منعقد کی گئی تھی۔

انہوں نےمزید کہا کہ این پی آر (قومی آبادی رجسٹر) نامی قانون جو ملک کے مختلف ریاستوں میں نافذ کیا جارہا ہے اور مردم شماری کے نام پر اس قانون کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ ناقابل قبول ہے اور اسے مسترد کرنا چاہیے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس قانون میں ایسے نئے نکات شامل کیے جارہیں جس سے شہریوں کی ایک بڑی آبادی کو دستاویزات اور ثبوت فراہم کرنے میں دشواری ہوسکتی ہے اور سروے آفیسر کسی کو بھی مشکوک شہری قرار دینے والے اختیارات کا غلط استعمال کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں ہمیں جلداز جلد مذاکرات کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔

ممبئی کے آزاد میدان میں 23 فروری کو ہونےوالے جمہوریت بچاؤ کانفرنس سے قبل مولانا ارشد مدنی نے مراٹھی پرترکار سنگھ میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ این پی آر کے حوالے سے مرکزی حکومت کا رویہ بہت مبہم اور متنازعہ ہے، جس وجہ سے شہریوں کے ذریعہ سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

مولانا ارشد مدنی نے مزید کہا کہ موجودہ این پی آر کے سلسلے میں مختلف خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں اس لیے اسے مسترد کرنا چاہیے۔

مولانا مدنی نے کہ این پی آر کی موجودہ شکل در حقیقت میں این آر سی کی طرف پہلا قدم ہے، اس لئے اس میں کچھ نئی معلومات فراہم کرنے کی گنجائش ہے جو عام لوگوں کے لئے ایک مشکل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سخت احتجاج اور حزب مخالف جماعتوں کی مخالفت کے بعد وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت کا ابھی تک ملک میں این آر سی نافذ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اگر حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے تو حکومت کو پارلیمنٹ میں واضح اور شفاف لفظوں میں بتانا چاہیے کہ وہ ملک میں این آر سی کبھی نافذ نہیں کرے گی لیکن حکومت جان بھوج کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت دانستہ حکمت عملی کے تحت این پی آر کو نئے سرے سے تیار کیا جارہا ہے اور اگر اس کو اس کی موجودہ شکل میں نافذ کیا جاتا ہے تو آسام کی طرح دیگر ریاستوں میں بھی سرکل آفسر کو کسی بھی شہری کو مشکوک یا مشتبہ شہری قرار دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔

مولانا مدنی نے مرکزی حکومت پر الزام عائد کیا کہ حکومت این پی آر کی موجود شکل کا استعمال کرکے ملک میں آسام جیسے صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے اوراگر ایسا ہوتا ہے تو شہریوں کے پاس فورین ٹریبونل کا حوالہ دینے کا اختیار ہوگا، لیکن انہیں وہاں اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی اور یہ مشکل کام ثابت ہوسکتا ہےکیونکہ ٹریبونل میں حکومت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سی اے اے کے خلاف ہیں کیونکہ یہ آئین میں موجود ان ہدایات کے خلاف لایا گیا ہے جو ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔این پی آر ہمارے لیے ناقابل قبول ہے، کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس قانون کے ذریعہ بی جے پی حکومت شہریوں کے شہریت کے حقوق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف وہ ملک کو نفرت کی آگ میں جلا کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔

جمیعت علماء ہند کے صدر نے23 فروری کو ممبئی کے آزاد میدان میں ہونے والے سیف ڈیموکریسی کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اترپردیش حکومت کی جانب سے دیو بند میں اجلاس منعقد کی اجازت نہیں ملنے کے بعد جمیعت علما اب ممبئی میں اجلاس منعقد کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انہیں حکومت نے اجلاس کی اجازت نہیں دی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمعیت اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کے بعد شہریت ترمیمی قانون کے سلسلے میں اپنے آئندہ ایکشن پلان کا فیصلہ کرے گی اور آزاد میدان میں ہونے والے اجلاس میں اسی کا اعلان کیا جائے گا۔

ممبئی میں منعقد پریس کانفرنس کے دوران جمیعت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ملک کی مسلم آبادی مردم شماری کی مخالفت نہیں کر رہی ہے، لیکن 2020 کی مردم اسی طرح ہونی چاہیے جیسے سال 2010 میں منعقد کی گئی تھی۔

انہوں نےمزید کہا کہ این پی آر (قومی آبادی رجسٹر) نامی قانون جو ملک کے مختلف ریاستوں میں نافذ کیا جارہا ہے اور مردم شماری کے نام پر اس قانون کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ ناقابل قبول ہے اور اسے مسترد کرنا چاہیے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس قانون میں ایسے نئے نکات شامل کیے جارہیں جس سے شہریوں کی ایک بڑی آبادی کو دستاویزات اور ثبوت فراہم کرنے میں دشواری ہوسکتی ہے اور سروے آفیسر کسی کو بھی مشکوک شہری قرار دینے والے اختیارات کا غلط استعمال کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں ہمیں جلداز جلد مذاکرات کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔

ممبئی کے آزاد میدان میں 23 فروری کو ہونےوالے جمہوریت بچاؤ کانفرنس سے قبل مولانا ارشد مدنی نے مراٹھی پرترکار سنگھ میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ این پی آر کے حوالے سے مرکزی حکومت کا رویہ بہت مبہم اور متنازعہ ہے، جس وجہ سے شہریوں کے ذریعہ سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

مولانا ارشد مدنی نے مزید کہا کہ موجودہ این پی آر کے سلسلے میں مختلف خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں اس لیے اسے مسترد کرنا چاہیے۔

مولانا مدنی نے کہ این پی آر کی موجودہ شکل در حقیقت میں این آر سی کی طرف پہلا قدم ہے، اس لئے اس میں کچھ نئی معلومات فراہم کرنے کی گنجائش ہے جو عام لوگوں کے لئے ایک مشکل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سخت احتجاج اور حزب مخالف جماعتوں کی مخالفت کے بعد وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت کا ابھی تک ملک میں این آر سی نافذ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اگر حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے تو حکومت کو پارلیمنٹ میں واضح اور شفاف لفظوں میں بتانا چاہیے کہ وہ ملک میں این آر سی کبھی نافذ نہیں کرے گی لیکن حکومت جان بھوج کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت دانستہ حکمت عملی کے تحت این پی آر کو نئے سرے سے تیار کیا جارہا ہے اور اگر اس کو اس کی موجودہ شکل میں نافذ کیا جاتا ہے تو آسام کی طرح دیگر ریاستوں میں بھی سرکل آفسر کو کسی بھی شہری کو مشکوک یا مشتبہ شہری قرار دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔

مولانا مدنی نے مرکزی حکومت پر الزام عائد کیا کہ حکومت این پی آر کی موجود شکل کا استعمال کرکے ملک میں آسام جیسے صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے اوراگر ایسا ہوتا ہے تو شہریوں کے پاس فورین ٹریبونل کا حوالہ دینے کا اختیار ہوگا، لیکن انہیں وہاں اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی اور یہ مشکل کام ثابت ہوسکتا ہےکیونکہ ٹریبونل میں حکومت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سی اے اے کے خلاف ہیں کیونکہ یہ آئین میں موجود ان ہدایات کے خلاف لایا گیا ہے جو ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔این پی آر ہمارے لیے ناقابل قبول ہے، کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس قانون کے ذریعہ بی جے پی حکومت شہریوں کے شہریت کے حقوق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف وہ ملک کو نفرت کی آگ میں جلا کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔

جمیعت علماء ہند کے صدر نے23 فروری کو ممبئی کے آزاد میدان میں ہونے والے سیف ڈیموکریسی کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اترپردیش حکومت کی جانب سے دیو بند میں اجلاس منعقد کی اجازت نہیں ملنے کے بعد جمیعت علما اب ممبئی میں اجلاس منعقد کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انہیں حکومت نے اجلاس کی اجازت نہیں دی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمعیت اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کے بعد شہریت ترمیمی قانون کے سلسلے میں اپنے آئندہ ایکشن پلان کا فیصلہ کرے گی اور آزاد میدان میں ہونے والے اجلاس میں اسی کا اعلان کیا جائے گا۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 1:46 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.