اورنگ آباد: ریاست مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں ایک سیمینار اردو میڈیم کے اسکولوں میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے منعقد کیا گیا۔
ابوظہبی سے آئے ماہر تعلیم ڈاکٹر ابو صالح انیس لقمان ندوی نے کہا میرے لیے یہ پہلا تجربہ ہے۔ اورنگ آباد میں اس طرح کے پروگرام کو خطاب کرنے کا تو میں سمجھتا ہوں یہ ایک بہت ہی مستحسن اقدام ہے جو مومن کانفرنس اور اردو نیشنل ٹیچرز یونین نے مشترک طور پر کیا ہے۔ اس طرح کے پروگرام مزید ہونے چاہیے اور خاص طور سے جو جدید تعلیمی رجحانات ہیں ان کے بے شمار پہلو ہیں۔ اس ایک نشست میں ان پر گفتگو نہیں کر سکا۔ اگر اس طرح کی نشست بار بار کی گئی تو اُمید ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کافی تبدیلیاں آئیں گی۔ ہمارے جو آؤٹ کم ہیں وہ بہتر ہونگے۔ کسی بھی پروگرام کو بہتر کرنے کے لیے پروگرام کے خاتمے پر ایک سروے فارم بنا لیا جائے اور اس پر اساتذہ کی اپنی رائے لی جائے کہ انہوں نے جو توقعات لے کر اس پروگرام میں شرکت کی تھی وہ پوری ہوئی یا نہیں۔
ابو صالح نے ذاتی طور پر یہ کہا کہ اگر میں خود اورگنائز کروں تو وہ فارم میں پہلے سے تیار رکھتا ہوں اور جو شرکا ہوتے ہیں ان میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ پھر ان کے تاثرات کی بنیاد پر آپ کو اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا جا سکتا ہے کہ وہ انہوں نے اس کو مفید پایا ہے۔
انہوں والدین سے خطاب کرتے ہوئے اسی موضوع پر ایک پانچ نکاتی فارمولا مختصر بیان کیا ہے۔ تعلیمی ترقی کے لیے توجہ، تعاون، تسلسل اور تنقید ہے جو والدین ہیں ان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بدلے ہوئے حالات کو سمجھیں اور اپنے بچوں کے شریک کار بنیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایجوکیشن پالیسی کے بارے میں میرا ایسا ماننا ہے کہ کمیونٹی میں جو تذبذب ہے وہ قابل توجہ ہے۔ اس لیے کہ ہر چیز کو نیگیٹو ذہن سے لینا ٹھیک نہیں ہے۔ تعلیمی پالیسی مختلف قوموں کے لیے علیحدہ علیحدہ نہیں بنتی یہ پورے ملک کے لیے بنتی ہے۔ ملک کی اکثریت جو ہے وہ اپنے بچوں کا نقصان نہیں چاہے گی تو انہوں نے جو پالیسی بنائی وہ اپنے بچوں کو سامنے رکھ کر بنائی۔
یہ بھی پڑھیں:Burqa Issue In Mumbai ممبئی کے ایک کالج میں حجاب زیب تن کیے طالبات کو داخل ہونے سے روکا