مہاراشٹر میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں شیوسینا دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔
بی جے پی نے 105 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ اس کی اتحادی جماعت شیوسینا نے 56 سیٹیوں پر قبضہ کیا ہے اور اب شیوسینا نے اقتدار میں نصف فیصدی حصہ داری کا مطالبہ کر کے بی جے پی کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
شیوسینا کا مطالبہ ہے کہ ڈھائی برس کے لیے شیوسینا کا وزیراعلی بنے اور ڈھائی برس کے لیے بی جے پی کا رہنما وزیراعلی بنے اور شیوسینا نے اس بطور تحریری معاہدہ قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
آج صبح شیوسینا کے رہنما دیواکر راؤتے اور بی جے پی کے رہنما دیویندر فڑنویس نے ریاست کے گورنر بھگت سنگھ کوشائری سے علیحدہ علیحدہ طور پر ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں نے صرف یہ کہا ہے کہ وہ گورنر کو ان کی رہائش گاہ پر دیوالی کی مبارک باد پیش کرنے کے لیے آئے تھے۔
اور مزید یہ کہ دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں نے اس بات کو سرے مسترد کردیا ہے کہ ریاست میں جاری سیاسی صورت حال سے متعلق گورنر سے کسی بھی طرح کوئی بات چیت کی گئی ہے۔
ذرائع کے حوالے سے خبر آرہی ہے کہ شیوسینا اور بی جے پی دونوں پارٹیوں کے رہنما علیحدہ علیحدہ طور پر ریاست کے گورنر سے ملاقات کریں گے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات میں امید افزا نتائج حاصل ہونے کے بعد شیوسینا نے بی جے پی پر نکتہ چینی کرنا بھی شروع کردی ہے۔
شیوسینا کبھی ملک میں جاری مندی کا ذمہ دار بی جے پی حکومت کو قرار دے رہی ہے تو کبھی ملک کی صنعت کے لیے منڈلارہے خطرات کے بادل ہر کے لیے پارٹی کی غلط پالیسیوں کو ذمہ بتارہی ہے۔
اس کے علاوہ سیٹوں کی تقسیم کو لے کر بھی شیوسینا اور بی جے پی نے اپنی اپنی سیٹوں میں اضافے کے لیے دیگر پارٹیوں کے اراکین اسمبلی کی حمایت کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔
مہاراشٹر میں سیاسی منظر نامہ انتہائی دلچسپ موڑ پر ہے اور اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کہنا مشکل ہے، اب یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ بی جے پی شیوسینا کی بات مان لیتی ہے یا پھر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتی ہے۔