ETV Bharat / state

Rais shaikh On Minorities: روزگار کے ساتھ تعلیمی پسماندگی میں بھی مسلمان سب سے زیادہ متاثر

مہاراشٹر میں مہاوکاس اگھاڑی نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل سے چشم پوشی کر تے ہوئے اقلیتوں کی فلاح وبہبودگی کی جانب کوئی توجہ نہیں دی ہے یہی وجہ ہے کہ کورونا کے بعد مسلمانوں کی حالت انتہائی خراب اور تعلیمی میدان میں تو حد درجہ پسماندگی میں اضافہ ہوا ہے یہ انتہائی تشویشناک امر ہے کیونکہ مسلمان یومیہ مزدور اور چھوٹے موٹے کاموں پر انحصار کرتے ہیں اور پروفیشنل طور پر مستحکم نہیں ہے اس لیے کورونا نے مسلمانوں کی کمر توڑ دی ہے 60 فیصد مسلمان ایسے ہیں جن کا خود کا گھر تک نہیں ہے اور بھیونڈی جیسے شہر میں وہ غیر قانونی مکان خریدنے کے لیے 4لاکھ کی خطیر رقم تک ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ MLA Rais Shaikh PC

author img

By

Published : Jul 20, 2022, 10:44 PM IST

وکاس اگھاڑی سرکار نے مسلمانوں کو الگ تھلگ کر دیا تھا
وکاس اگھاڑی سرکار نے مسلمانوں کو الگ تھلگ کر دیا تھا

ممبئی: مسلمانوں کی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ اس طبقہ میں بے روزگار سے لے کر دیگر مسائل میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور سرکاری اسکیمات مسلمانوں کے لیے نظر انداز کی گئی اس قسم کا سنسنی خیز اور سنگین الزامات بھیونڈی مشرق سے رکن اسمبلی اور ایس پی رہنما رئیس شیخ نے مہاوکاس اگھاڑی کے دور اقتدار میں مسلمانوں سے بے توجہی کے اعدادوشمار کے ساتھ عائد کیے ہیں۔

رئیس شیخ نے چرچ گیٹ پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے سرکار نے کوئی اقدامات نہیں کئے ہیں اور جو فنڈ بھی مختص کئے گئے تھے اس کا بھی استعمال نہیں کیا گیا ہے محمود الرحمن کمیٹی اور سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے اقدامات کی سفارشات کی تھی لیکن سرکار نے اس پر بھی توجہ نہیں دی ہے۔ محمود الرحمن کمیٹی کے مطابق ریاست میں 0.5 فیصد مسلمان سائنس انجینرنگ اور ٹکنالوجی میں گریجویٹ ہیں جبکہ پوسٹ گریجویشن میں یہ فیصد 0.1 فیصد ہے مسلمانوں کیلئے فنڈ کا 60فیصد استعمال ریاستی سرکار نے کیا ہے جو مسلمانوں کو اعلی تعلیم کیلئے تعلیمی وظائف میں اس کا زیادہ استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن تعلیمی اسکالر شپ میں کئی ایسی شرائط وضع کئے گئے ہیں جس سے اسکالر شپ حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی سہولیات سے بھی مسلمانوں اور اقلیتی بستیوں کو محروم رکھا گیا ہے اور مسلمانوں کی ترقی سے متعلق فنڈ کو دیگر محکمہ میں استعمال کر کے گارڈن اور سڑکیں تعمیر پر خرچ کیا گیا ہے 90کروڑ روپے کا فنڈ مرکزی سرکار نے مسلمانوں کی فلاح اور اقلیتوں کیلئے وضع کئے تھے لیکن اس فنڈ کا بھی غلط استعمال اور اسکیم کی خلاف ورزی کر تے ہوئے سابق اقلیتی وزیر جتندر آہواڑ نے کئے ہیں اور اس فنڈ سے انہوں نے سڑکیں اور گارڈن تعمیر کروائے ہیں وہ بھی اس کا استعمال پوش علاقوں میں کیا گیا ہے۔

رئیس شیخ نے کہا کہ ایم وی اے سرکار نے وقف ورڈ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے اقلیتی آبادی کے علاقوں میں جہاں تقریبا 60 فیصد بچے اردو تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں وہاں اردو زبان کے فروغ کیلئے اردو گھر کے قیام کی ضرورت ہے ان فلاحی کاموں کیلئے مختص فنڈ میں کمی کے سبب یہ پروجیکٹ التواء کار شکار ہے انہوں نے کہا کہ ریاست میں مراٹھا برادری کیلئے ساتھی اوبی سی کیلئے مہا جوتی اور ایس سی برادری کیلئے بارتی یسی اسکیمات کی بنیاد پر گروپ اے بی اور متعلقہ خدمات کیلئے ایک خود مختار ادارہ کے قیام کا مطالبہ بھی رئیس شیخ نے کیا ہے۔

انہوں نے مسلمانوں کو ادھو ٹھاکرے سرکار میں نظر انداز کئے جانے کا شکوہ کرتے ہوئے ریاستی وزیر اقلیتی امور نواب ملک پر بھی کئی سنگین الزامات عائد کئے ہیں انہوں نے کہا کہ اقلیتی محکمہ نے اقلیتوں کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے مشکل ترین شرائط اسکیمات میں عائد کی تھی ریاستی سرکار کا اقلیتی بجٹ 2022-23 کا بجٹ 5,48,780 کروڑ روپے ہے۔

رئیس شیخ نے ریاستی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی, معاشی اور سماجی فلاح وبہبود کیلئے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ہی رئیس شیخ نے کہا کہ 2011 ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست میں اقلیتوں کا بجٹ بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے مسائل پر توجہ دینے کیلئے ریاستی سرکار کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے اور نائب وزیر اعلی دیویندر فڑنویس سے مائناریٹی ٹاسک فورس کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں دانشوران و مفکرین کے ساتھ تجزیہ کار کی شمولیت ہوگی اور سرکار اس کی رپورٹ پر اقلیتوں کی حالت میں بہتری کی کوشش کریگی اس سلسلے میں اقلیتوں اور مسلمانوں کی حالت میں بہتری پیدا کر نے کیلئے اس کی سفارشات پر عمل آوری کرنے کے اقدامات بھی شروع کئے جائیں ہمیں امید ہے کہ موجودہ سرکار تمام طبقات اور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریگی۔ اس سوال پر کہ کیا مہا وکاس اگھاڑی سرکار نے مسلمانوں کو الگ تھلگ رکھ دیا تھا اور وہ مشترکہ پروگرام پر عمل نہیں کر رہی تھی تو رئیس شیخ نے کہا کہ اس سرکار سے مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ کورونا میں سب سے زیادہ متاثر مسلمان ہی ہوئے تھے کیونکہ عام طور پر مسلمانوں کا انحصار یومیہ کام کاج پر ہوتا ہے ایسے میں مسلمانوں کی حالت میں بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

کورونا کے سبب کئی والدین تو ایسے ہیں جنہیں اپنے بچوں کو اسکولوں سے فیس کی ادائیگی نہ کر نے کی وجہ سے نکالنا پڑا مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ تعلیم سے محروم ہوگیا ہے اور ڈراپ آؤٹ بھی بڑھ گیا ہے اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بے روزگار میں بھی کورونا کے بعد اضافہ ہوا ہے اور معیشت پوری طرح سے تباہ ہوگئی ہے اس کا اثر مسلمان مزدوروں اور چھوٹے طبقات پر ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Salman Khurshid on Exploitation of Minorities: ملک سے نفرت کی سیاست اور اقلیتیوں کا استحصال روکنا نہایت ضروری: سلمان خورشید

ممبئی: مسلمانوں کی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ اس طبقہ میں بے روزگار سے لے کر دیگر مسائل میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور سرکاری اسکیمات مسلمانوں کے لیے نظر انداز کی گئی اس قسم کا سنسنی خیز اور سنگین الزامات بھیونڈی مشرق سے رکن اسمبلی اور ایس پی رہنما رئیس شیخ نے مہاوکاس اگھاڑی کے دور اقتدار میں مسلمانوں سے بے توجہی کے اعدادوشمار کے ساتھ عائد کیے ہیں۔

رئیس شیخ نے چرچ گیٹ پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے سرکار نے کوئی اقدامات نہیں کئے ہیں اور جو فنڈ بھی مختص کئے گئے تھے اس کا بھی استعمال نہیں کیا گیا ہے محمود الرحمن کمیٹی اور سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے اقدامات کی سفارشات کی تھی لیکن سرکار نے اس پر بھی توجہ نہیں دی ہے۔ محمود الرحمن کمیٹی کے مطابق ریاست میں 0.5 فیصد مسلمان سائنس انجینرنگ اور ٹکنالوجی میں گریجویٹ ہیں جبکہ پوسٹ گریجویشن میں یہ فیصد 0.1 فیصد ہے مسلمانوں کیلئے فنڈ کا 60فیصد استعمال ریاستی سرکار نے کیا ہے جو مسلمانوں کو اعلی تعلیم کیلئے تعلیمی وظائف میں اس کا زیادہ استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن تعلیمی اسکالر شپ میں کئی ایسی شرائط وضع کئے گئے ہیں جس سے اسکالر شپ حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی سہولیات سے بھی مسلمانوں اور اقلیتی بستیوں کو محروم رکھا گیا ہے اور مسلمانوں کی ترقی سے متعلق فنڈ کو دیگر محکمہ میں استعمال کر کے گارڈن اور سڑکیں تعمیر پر خرچ کیا گیا ہے 90کروڑ روپے کا فنڈ مرکزی سرکار نے مسلمانوں کی فلاح اور اقلیتوں کیلئے وضع کئے تھے لیکن اس فنڈ کا بھی غلط استعمال اور اسکیم کی خلاف ورزی کر تے ہوئے سابق اقلیتی وزیر جتندر آہواڑ نے کئے ہیں اور اس فنڈ سے انہوں نے سڑکیں اور گارڈن تعمیر کروائے ہیں وہ بھی اس کا استعمال پوش علاقوں میں کیا گیا ہے۔

رئیس شیخ نے کہا کہ ایم وی اے سرکار نے وقف ورڈ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے اقلیتی آبادی کے علاقوں میں جہاں تقریبا 60 فیصد بچے اردو تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں وہاں اردو زبان کے فروغ کیلئے اردو گھر کے قیام کی ضرورت ہے ان فلاحی کاموں کیلئے مختص فنڈ میں کمی کے سبب یہ پروجیکٹ التواء کار شکار ہے انہوں نے کہا کہ ریاست میں مراٹھا برادری کیلئے ساتھی اوبی سی کیلئے مہا جوتی اور ایس سی برادری کیلئے بارتی یسی اسکیمات کی بنیاد پر گروپ اے بی اور متعلقہ خدمات کیلئے ایک خود مختار ادارہ کے قیام کا مطالبہ بھی رئیس شیخ نے کیا ہے۔

انہوں نے مسلمانوں کو ادھو ٹھاکرے سرکار میں نظر انداز کئے جانے کا شکوہ کرتے ہوئے ریاستی وزیر اقلیتی امور نواب ملک پر بھی کئی سنگین الزامات عائد کئے ہیں انہوں نے کہا کہ اقلیتی محکمہ نے اقلیتوں کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے مشکل ترین شرائط اسکیمات میں عائد کی تھی ریاستی سرکار کا اقلیتی بجٹ 2022-23 کا بجٹ 5,48,780 کروڑ روپے ہے۔

رئیس شیخ نے ریاستی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی, معاشی اور سماجی فلاح وبہبود کیلئے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ہی رئیس شیخ نے کہا کہ 2011 ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست میں اقلیتوں کا بجٹ بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے مسائل پر توجہ دینے کیلئے ریاستی سرکار کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے اور نائب وزیر اعلی دیویندر فڑنویس سے مائناریٹی ٹاسک فورس کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں دانشوران و مفکرین کے ساتھ تجزیہ کار کی شمولیت ہوگی اور سرکار اس کی رپورٹ پر اقلیتوں کی حالت میں بہتری کی کوشش کریگی اس سلسلے میں اقلیتوں اور مسلمانوں کی حالت میں بہتری پیدا کر نے کیلئے اس کی سفارشات پر عمل آوری کرنے کے اقدامات بھی شروع کئے جائیں ہمیں امید ہے کہ موجودہ سرکار تمام طبقات اور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریگی۔ اس سوال پر کہ کیا مہا وکاس اگھاڑی سرکار نے مسلمانوں کو الگ تھلگ رکھ دیا تھا اور وہ مشترکہ پروگرام پر عمل نہیں کر رہی تھی تو رئیس شیخ نے کہا کہ اس سرکار سے مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ کورونا میں سب سے زیادہ متاثر مسلمان ہی ہوئے تھے کیونکہ عام طور پر مسلمانوں کا انحصار یومیہ کام کاج پر ہوتا ہے ایسے میں مسلمانوں کی حالت میں بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

کورونا کے سبب کئی والدین تو ایسے ہیں جنہیں اپنے بچوں کو اسکولوں سے فیس کی ادائیگی نہ کر نے کی وجہ سے نکالنا پڑا مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ تعلیم سے محروم ہوگیا ہے اور ڈراپ آؤٹ بھی بڑھ گیا ہے اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بے روزگار میں بھی کورونا کے بعد اضافہ ہوا ہے اور معیشت پوری طرح سے تباہ ہوگئی ہے اس کا اثر مسلمان مزدوروں اور چھوٹے طبقات پر ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Salman Khurshid on Exploitation of Minorities: ملک سے نفرت کی سیاست اور اقلیتیوں کا استحصال روکنا نہایت ضروری: سلمان خورشید

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.