ممبئی: داڑھی، ٹوپی، کرتا اور پائجامہ اس طرح کے لباس کو ایک مخصوص طبقہ یعنی مسلمانوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ لباس صرف مسلمانوں کی ہی روایت کا حصہ نہیں ہے بلکہ ملک کے ہر خطے میں اس لباس سے مشابہت رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں، لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے یہ لباس ملک کے ایک ایسے طبقے کی آنکھوں میں چبھ رہا ہے جو اس طرح کے لباس پہننے والوں کی مشابہت کسی بڑے مجرم سے کرتے ہوئے اُنہیں گناہ عظیم کی فہرست میں شامل کر لیتے ہیں۔ ملک کی کئی ریاستوں میں اس سوچ کے ذریعے اس طرح کے لباس میں ملبوس افراد کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں عمر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اب بچوں کو بھی قانون کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے 29 مئی کو بھساول اسٹیشن پر اور 31 مئی کو منماڑ اسٹیشن پر کچھ ایسی پوشاک میں 59 بچے اور ان کے ساتھ کچھ مولانا جو اُنہیں اپنے ہمراہ لے کر کسی مدرسہ کو جا رہے تھے۔ اُن سب کو ریسکیو کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ الزام عائدکیا گیا کہ انسانی اسمگلنگ کی جا رہی ہے۔ کسی غیر سرکاری تنظیم کی بیداری مہم کے ذریعے ان کی شکایت پر پولیس نے ان سبھی کو ریلوے پولیس نے بڑی ہی بے باکی اور بڑی ہی آناً فاناً میں حراست میں لیا۔ معاملہ انسانی اسمگلنگ کا درج کیا گیا۔ چار مولانا کو گرفتار کیا گیا۔ بچوں کو بال سدھار گرہ بھیج دیا گیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ پولیس نے اگر ابتدائی تفتیش سنجیدگی سے کی ہوتی تو حقیقت کا ویسا ہی علم ہوتا جیسا جگ ظاہر ہے۔ لیکن چونکہ ان سب کو ایک مخصوص لباس میں دیکھا گیا تو قانون کا بےجا لقمہ بنانے میں دیر نہیں لگی۔
مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسمبلی مفتی اسمٰعیل نے کہا کہ کارروائی کے لیے جلد بازی میں اٹھایا گیا یہ قدم ہے جو محکمۂ پولیس کی جانب سے سے کیا گیا ہے۔ ملک کا آئین ایک ریاست سے دوسری ریاست میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اجازت دیتا ہے۔ لوگ جاتے بھی ہیں۔ ہندوستان سے لوگ بیرون ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پولیس نے سرپرستوں پر انسانی اسمگلنگ کا کیس درج کرتے ہوئے انہیں گرفتار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو پورا موقع دیتے ہیں، آپ جانچ کریں۔ انسانی اسمگلنگ کا معاملہ اگر ہے تو آپ کارروائی کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ بچے جو پڑھنے آئے اُن کا قانونی حق ہے۔ اُسے کوئی نہیں چھین سکتا۔
- یہ بھی پڑھیں:
Naseem Khan on Higher Education اعلی تعلیم کے حصول کیلئے مسلمانوں کو تحریک چلانے کی ضرورت، نسیم خان
مفتی اسمٰعیل نے کہا کہ یہ مدرسے کو نشانہ بناکر ان کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ مذہبی تعلیم حاصل نہ کرسکیں۔ لیکن اس واردات میں نیا موڑ اس وقت آگیا جب بہار کے 59 بچوں کے والدین نے ان بچوں کو لیکر اپنی پریشانی ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے اپنی رضامندی سے بچوں کو پڑھائی کے لیے مولانا کے حوالے کیا ہے۔ جن کو عربی اور اردو پڑھانی ہوتی ہے۔ ان والدین کا کہنا ہے کہ پولس نے غلط کیس درج کیا ہے۔ اب اس کے بعد ریلوے پولیس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے اور وہ کچھ بھی کہنے سی قاصر ہے۔