ETV Bharat / state

'ممبئی کی مسلم بستیاں آج بھی ترقی کے نام سے انجان' - جنوبی ممبئی کا ایک حصہ گجراتی سماج کے لوگوں سے بھرا ہوا

آج ملک میں مسلمان صرف سیاسی پارٹیوں کے ووٹ بینک بن کر رہ گئے ہیں۔ حکومت آتی ہے اور جاتی ہے لیکن مسلمانوں کی حالت جیسی کی تیسی ہی رہتی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی آنے کی بجائے ان کے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔

متعلقہ تصویر
author img

By

Published : Oct 3, 2019, 10:22 PM IST

ملک کے معاشی دارالحکومت ممبئی کی آبادی کی تقریبا 22 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے لیکن مسلم علاقوں کی حالت ویسی ہی ہے جیسی پچھلی حکومتوں میں رہی ہے۔

ممبئی کے کچھ علاقوں سے مسلم سماج کو جھوپڑ پٹی سے باز آبادکاری کے تحت پختہ عمارتیں تو مل گئی ہیں لیکن عمارتوں کا حال بھی ان کی خستہ حالی کی کہانی بیان کرتی ہے۔

متعلقہ ویڈیو

آئیے دیکھتے ہیں مسلم سماج کی رہنمائی کرنے والے سیاسی قائدین کا اس پر کیا کہنا ہے۔

ممبئی ایک بڑی آبادی والا شہر ہے جس کے اعداد و شمار نے ایشیائی شہروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ممبئی میں بڑھتی آبادی نے 2 کروڑ کے عدد کو پار کر لیا ہے۔ اس شہر میں مسلم بستیوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔

حکومتی اعداد و شمار پر غور کریں تو فی الوقت ممبئی کی آبادی کا بائیس فیصد حصہ مسلمانوں کا ہے۔ اس لیے شہر کے مسلمان ہمیشہ ووٹ بینک کے طور پر استعمال ہوتے آرہے ہیں۔

ممبئی کے کئی بڑے مسلم اکثریتی علاقوں میں سہولیات زندگی کی زبردست کمی ہے۔ ان مسلم اکثریتی علاقوں میں سے کئی بڑے علاقوں سے بڑی پارٹیوں کے مسلم نمائندے منتخب ہوتے رہے ہیں لیکن علاقے کے مسائل ہنوز حل نہیں ہو سکے ہیں۔

ممبئی کی غیر مراٹھی سیاست میں شمالی ہند کے مسلمانوں کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ اس رسوخ کو توڑنے کی کوشش مراٹھی اور دیگر ریاست سے آکر بسے لوگوں نے کئی بار کی۔ ممبئی میں شمالی ہند کی مسلم لیڈر شپ کے سامنے غیر مسلم شمالی ہند لیڈرشپ بھی کئی بار جھکنے کو مجبور ہوئی ہے۔

یہی سبب ہے کہ موجودہ دور میں اہم مخالف سیاسی پارٹی کانگریس، این سی پی بھی شمالی ہند کی مسلم لیڈر شپ کو ہی حکومت اور تنظیم میں نہ صرف اہم جگہ دیتی ہے بلکہ انتخاب لڑنے کا بھرپور موقع بھی عنایت کرتی ہے۔ اس کے باوجود ممبئی میں رہائش پذیر شمالی ہند کے مسلمانوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

آج بھی ممبئی مسلم اکثریتی علاقوں میں تعلیم، صفائی، سڑک، گلی، ٹریفک کی بے ربطی اور پانی، قبرستان جیسے بنیادی ضروریات کی کمی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

ممبئی میں مسلم اکثریتی علاقے انتہائی بدحالی کا شکار ہیں۔ جگہ کی کمی کے سبب ووٹ بینک حاصل کرنے کے لیے شمالی ہند کے مسلمانوں کو جھوپڑ پٹی میں بسا دیا جاتا ہے لیکن ان جھوپڑوں میں ان کا رخ اور ان کی حالت کیسے تبدیل ہوگی یہ سیاسی رہنماؤں کو غور کرنا چاہیے۔ اہم سوال یہ ہے کہ وارڈ ، اسمبلی یا پارلیمانی حلقوں میں ترقیاتی فنڈ اگر ہر جگہ برابر پہنچتا ہے تو مسلم علاقوں کی ترقی ہی کیوں اٹک جاتی ہے؟

مسلم سیاست کے دبدبہ کا تازہ ثبوت شہر کی تاریخ کی سیاست رہی ہے ۔ سنہ 2014 تک ممبئی کی کل 36 اسمبلی حلقوں میں سے چھ سیٹوں پر مسلم ایم ایل اے رہے ہیں۔ چاندیولی، ساکی ناکہ ، ملاڈ، باندرہ، ممبا دیوی، مانخورد شیواجی نگر،کرلا، بھنڈی بازار ، گوونڈی جیسے کئی بڑے مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلم چہرے اسمبلی میں پہنچتے رہے ہیں لیکن یہاں پر ترقی کے نام پر کچھ نہیں ہوا۔

ممبئی کی کل آبادی کا ستر فیصد حصہ غیر مراٹھی ہے جس میں سب سے زیادہ شمالی ہند کے مسلمانوں کی تعداد ہے۔ اس کے علاوہ گجراتی مسلمان اور کوکنی مسلمان ہیں جن کی تعداد شمالی ہند کے مسلمانوں سے کافی کم ہے۔

جنوبی ممبئی کا ایک حصہ گجراتی سماج کے لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس سیٹ کے کانگریس کی جھولی میں ہی رہنے کا ریکارڈ رہا ہے۔ گجراتی مسلم چہرہ اس سیٹ کی جیت کا تاج لے کر ہی نمودار ہوتا ہے۔

اسی طرح کرلا، گوونڈی، ملاڈ جیسے علاقوں میں مسلم سیاسی نمائندے مسلم عوام کو محض ووٹ بینک کے طور پر ہی استعمال کرتے آرہے ہیں لیکن ممبئی کی غریب اور ترقی سے کوسوں دور مسلم بستیاں آج بھی ترقی کے نام سے انجان ہیں۔ کچھ سیاسی نمائندے کام میں حکومت یا بی ایم سی کی دخل اندازی کا حوالہ دیتے ہیں۔

ممبئی میں کئی بڑے شمالی ہند کے چہرے عوام کی کئی برسوں سے نمائندگی کرتے آرہے ہیں لیکن کئی اہم عوامی بنیادی ضروریات سے یہ مسلم بستیاں محروم ہیں۔ ممبئی میں جو بڑے مسلم چہرے ہیں۔ ان کے مطابق مسلم علاقوں میں کسی اچھے عوامی نمائندے کی ضرورت۔ مطلب زیادہ سے زیادہ مسلم علاقوں میں جب لیڈر منتخب ہو کر آئیں گے تو ترقی ہوگی۔

حالانکہ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ ہر سیاسی رہنما آج کل محض ووٹ بینک کی سیاست کرتا ہے۔ عوامی مفاد سے کسی کو کچھ مطلب نہیں ہے۔ اب وہ عام عوام ہو یا ذات اور مذہب میں تقسیم سماج ہو۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سبھی سماج کے لوگ اپنے لیے ایسے نمائندے منتخب کریں جنہیں ان کی فکر ہو ان کی تکلیفوں کا احساس ہو۔

ملک کے معاشی دارالحکومت ممبئی کی آبادی کی تقریبا 22 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے لیکن مسلم علاقوں کی حالت ویسی ہی ہے جیسی پچھلی حکومتوں میں رہی ہے۔

ممبئی کے کچھ علاقوں سے مسلم سماج کو جھوپڑ پٹی سے باز آبادکاری کے تحت پختہ عمارتیں تو مل گئی ہیں لیکن عمارتوں کا حال بھی ان کی خستہ حالی کی کہانی بیان کرتی ہے۔

متعلقہ ویڈیو

آئیے دیکھتے ہیں مسلم سماج کی رہنمائی کرنے والے سیاسی قائدین کا اس پر کیا کہنا ہے۔

ممبئی ایک بڑی آبادی والا شہر ہے جس کے اعداد و شمار نے ایشیائی شہروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ممبئی میں بڑھتی آبادی نے 2 کروڑ کے عدد کو پار کر لیا ہے۔ اس شہر میں مسلم بستیوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔

حکومتی اعداد و شمار پر غور کریں تو فی الوقت ممبئی کی آبادی کا بائیس فیصد حصہ مسلمانوں کا ہے۔ اس لیے شہر کے مسلمان ہمیشہ ووٹ بینک کے طور پر استعمال ہوتے آرہے ہیں۔

ممبئی کے کئی بڑے مسلم اکثریتی علاقوں میں سہولیات زندگی کی زبردست کمی ہے۔ ان مسلم اکثریتی علاقوں میں سے کئی بڑے علاقوں سے بڑی پارٹیوں کے مسلم نمائندے منتخب ہوتے رہے ہیں لیکن علاقے کے مسائل ہنوز حل نہیں ہو سکے ہیں۔

ممبئی کی غیر مراٹھی سیاست میں شمالی ہند کے مسلمانوں کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ اس رسوخ کو توڑنے کی کوشش مراٹھی اور دیگر ریاست سے آکر بسے لوگوں نے کئی بار کی۔ ممبئی میں شمالی ہند کی مسلم لیڈر شپ کے سامنے غیر مسلم شمالی ہند لیڈرشپ بھی کئی بار جھکنے کو مجبور ہوئی ہے۔

یہی سبب ہے کہ موجودہ دور میں اہم مخالف سیاسی پارٹی کانگریس، این سی پی بھی شمالی ہند کی مسلم لیڈر شپ کو ہی حکومت اور تنظیم میں نہ صرف اہم جگہ دیتی ہے بلکہ انتخاب لڑنے کا بھرپور موقع بھی عنایت کرتی ہے۔ اس کے باوجود ممبئی میں رہائش پذیر شمالی ہند کے مسلمانوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

آج بھی ممبئی مسلم اکثریتی علاقوں میں تعلیم، صفائی، سڑک، گلی، ٹریفک کی بے ربطی اور پانی، قبرستان جیسے بنیادی ضروریات کی کمی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

ممبئی میں مسلم اکثریتی علاقے انتہائی بدحالی کا شکار ہیں۔ جگہ کی کمی کے سبب ووٹ بینک حاصل کرنے کے لیے شمالی ہند کے مسلمانوں کو جھوپڑ پٹی میں بسا دیا جاتا ہے لیکن ان جھوپڑوں میں ان کا رخ اور ان کی حالت کیسے تبدیل ہوگی یہ سیاسی رہنماؤں کو غور کرنا چاہیے۔ اہم سوال یہ ہے کہ وارڈ ، اسمبلی یا پارلیمانی حلقوں میں ترقیاتی فنڈ اگر ہر جگہ برابر پہنچتا ہے تو مسلم علاقوں کی ترقی ہی کیوں اٹک جاتی ہے؟

مسلم سیاست کے دبدبہ کا تازہ ثبوت شہر کی تاریخ کی سیاست رہی ہے ۔ سنہ 2014 تک ممبئی کی کل 36 اسمبلی حلقوں میں سے چھ سیٹوں پر مسلم ایم ایل اے رہے ہیں۔ چاندیولی، ساکی ناکہ ، ملاڈ، باندرہ، ممبا دیوی، مانخورد شیواجی نگر،کرلا، بھنڈی بازار ، گوونڈی جیسے کئی بڑے مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلم چہرے اسمبلی میں پہنچتے رہے ہیں لیکن یہاں پر ترقی کے نام پر کچھ نہیں ہوا۔

ممبئی کی کل آبادی کا ستر فیصد حصہ غیر مراٹھی ہے جس میں سب سے زیادہ شمالی ہند کے مسلمانوں کی تعداد ہے۔ اس کے علاوہ گجراتی مسلمان اور کوکنی مسلمان ہیں جن کی تعداد شمالی ہند کے مسلمانوں سے کافی کم ہے۔

جنوبی ممبئی کا ایک حصہ گجراتی سماج کے لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس سیٹ کے کانگریس کی جھولی میں ہی رہنے کا ریکارڈ رہا ہے۔ گجراتی مسلم چہرہ اس سیٹ کی جیت کا تاج لے کر ہی نمودار ہوتا ہے۔

اسی طرح کرلا، گوونڈی، ملاڈ جیسے علاقوں میں مسلم سیاسی نمائندے مسلم عوام کو محض ووٹ بینک کے طور پر ہی استعمال کرتے آرہے ہیں لیکن ممبئی کی غریب اور ترقی سے کوسوں دور مسلم بستیاں آج بھی ترقی کے نام سے انجان ہیں۔ کچھ سیاسی نمائندے کام میں حکومت یا بی ایم سی کی دخل اندازی کا حوالہ دیتے ہیں۔

ممبئی میں کئی بڑے شمالی ہند کے چہرے عوام کی کئی برسوں سے نمائندگی کرتے آرہے ہیں لیکن کئی اہم عوامی بنیادی ضروریات سے یہ مسلم بستیاں محروم ہیں۔ ممبئی میں جو بڑے مسلم چہرے ہیں۔ ان کے مطابق مسلم علاقوں میں کسی اچھے عوامی نمائندے کی ضرورت۔ مطلب زیادہ سے زیادہ مسلم علاقوں میں جب لیڈر منتخب ہو کر آئیں گے تو ترقی ہوگی۔

حالانکہ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ ہر سیاسی رہنما آج کل محض ووٹ بینک کی سیاست کرتا ہے۔ عوامی مفاد سے کسی کو کچھ مطلب نہیں ہے۔ اب وہ عام عوام ہو یا ذات اور مذہب میں تقسیم سماج ہو۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سبھی سماج کے لوگ اپنے لیے ایسے نمائندے منتخب کریں جنہیں ان کی فکر ہو ان کی تکلیفوں کا احساس ہو۔

Intro:


اینکر : آج ملک میں مسلمان محض سیاسی پارٹیوں کا ووٹ بینک بن کر رہ گیا ہے ۔ حکومت آتی ہے اور جاتی ہے لیکن مسلمانوں کی حالت جیسی کی تیسی بنی رہتی ہے ۔ اس میں کوئی تبدیلی آنے کی بجائے ان کے حالات میں مزید ابتری آتی جاتی ہے ۔ ملک کی معاشی راجدھانی ممبئی کی آبادی کی تقریبا چوتھائی ووٹ بینک مسلمانوں کا ہے ۔ لیکن مسلم علاقوں کی حالت ویسی ہی بنی ہوئی ہے جیسے پہلی حکومتوں میں رہی ۔ ممبئی کے کچھ علاقوں سے مسلم سماج کو جھوپڑ پٹی باز آبادکاری کے تحت پختہ عمارتیں تو مل گئی ہیں لیکن عمارتوں کا حال بھی ان کی بدتر حالت کی غمازی کرتی نظر آجائیں گی ۔ آئیے دیکھتے ہیں مسلم سماج کی رہنمائی کرنے والے سیاسی قائدین کا اس پر کیا کہنا ہے ۔

وی او : ممبئی بڑی آبادی والا شہر ہے جس کے اعداد و شمار نے ایشیائی شہروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ ممبئی میں بڑھتی آبادی نے ٢ کروڑ کے عدد کو پار کرلیا ہے ۔ اس شہر میں مسلم بستیوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ حکومتی اعداد و شمار پر غور کریں تو فی الوقت ممبئی کی آبادی کا بائیس فیصد حصہ مسلمانوں کا ہے ۔اس لئے شہر کے مسلمان ہمیشہ ووٹ بینک کے طور پر استعمال ہوتے آرہے ہیں ۔ ممبئی کے کئی بڑے مسلم اکثریتی علاقوں میں سہولیات زندگی کی زبردست کمی ہے ۔ ان مسلمن اکثریتی علاقوں میں سے کئی بڑے علاقوں سے بڑی پارٹیوں کےمسلم عوام کے نمائندے کی حیثیت سے انکے رہنما منتخب ہوتے رہے ہیں لیکن مسائل کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے کی عادت سے وہ کبھی باز نہیں آتے ۔



وی او : ممبئی کی غیر مراٹھی سیاست میں شمالی ہند کے مسلمانوں کا خاصا اثر و رسوخ ہے ۔ اس رسوخ کو توڑنے کی کوشش مراٹھی اور دیگر ریاست سے آکر بسے لوگوں نے کئی بار کی ۔ ممبئی میں شمالی ہند مسلم لیڈر شپ کے سامنے غیر مسلم شمالی ہند لیڈرشپ بھی کئی مرتبہ جھکنے کو مجبور ہوئی ہے ۔

یہی سبب ہے کہ موجودہ دور میں اہم مخالف سیاسی پارٹی کانگریس ،این سی پی بھی شمالی ہند کے مسلم لیڈر شپ کو ہی حکومت اور تنظیم میں نہ صرف اہم جگہ دیتی ہیں بلکہ انتخاب لڑنے کا بھرپور موقعہ بھی عنایت کرتی ہیں ۔ اس کے باوجود ممبئی میں رہائش پذیر شمالی ہند کے مسلمانوں کی حالت کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ سماج کے لیڈر انہیں اب تک ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں ۔ آج بھی ممبئی مسلم اکثریتی علاقوں میں تعلیم ، صفائی ، سڑک اور گلیاں ، ٹریفک کی بے ربطی اور پانی . قبرستان جیسے بنیادی وسائل کی کمی سے جوجھنا پڑتا ہے ۔



وی او : ممبئی میں مسلم اکثریتی علاقے انتہائی بدحالی کا شکار ہیں ۔ جگہ کی کمی کے سبب ووٹ بینک حاصل کرنے کیلئے شمالی ہند کے مسلمانوں کو جھوپڑ پٹی میں بسا دیا جاتا ہے ۔ لیکن ان جھوپڑوں میں ان کا رخ اور ان کی حالت کیسے تبدیل ہوگی یہ سیاسی لیڈروں کو غور کرنا چاہئے ۔ اہم سوال یہ ہے کہ وارڈ ، اسمبلی یا پارلیمانی حلقوں میں ترقیاتی فنڈ اگر ہر جگہ برابر پہنچتی ہے تو مسلم علاقوں کی ترقی ہی کیوں اٹک جاتی ہے ؟



وی او : مسلم سیاست کے دبدبہ کا تازہ ثبوت شہر کی تاریخ کی سیاست رہی ہے ۔ سال ۲۰۱۴ تک ممبئی کی کل 36 اسمبلی حلقوں میں سے چھ سیٹوں پر مسلم ایم ایل اے رہے ہیں ۔ چاندی ولی ، ساکی ناکہ ، ملاڈ ، باندرہ ،ممبا دیوی سے مانخورد شیواجی نگر ،کرلا بھنڈی بازار ، گوونڈی جیسے کئی بڑے مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلم چہرے اسمبلی میں پہنچتے رہے ہیں ۔ لیکن یہاں پر ترقی کے نام پر کچھ نہیں ہوا ۔



وی او : ممبئی کی کل آبادی کا ستر فیصد حصہ غیر مراٹھی ہیں ۔ جس میں سب سے زیادہ شمالی ہند کے مسلمانوں کی تعداد ہے ۔ اس کے علاوہ گجراتی مسلمان اور کوکنی مسلمان ہیں جن کی تعداد شمالی ہند کے مسلمانوں سے کافی کم ہے ۔ جنوبی ممبئی کا ایک حصہ گجراتی سماج کے لوگوں سے بھرا ہوا ہے ۔ اس سیٹ کے کانگریس کی جھولی میں ہی رہنے کا ریکارڈ رہا ہے ۔ گجراتی مسلم چہرہ اس سیٹ کی جیت کا تاج لے کر ہی نمودار ہوتا ہے ۔ اسی طرح کرلا گوونڈی ملاڈ جیسے علاقوں میں مسلم سیاسی نمائندے مسلم عوام کو محض ووٹ بینک کے طور پر ہی استعمال کرتے آرہے ہیں ۔ لیکن ممبئی کی غریب اور ترقی سے کوسوں دور مسلم بستیاں آج بھی ترقی کے نام سے انجان ہیں ۔ کچھ سیاسی نمائندے کام میں حکومت یا بی ایم سی کی دخل اندازی کا حوالہ دیتے ہیں ۔

بائٹ : اشرف اعظمی ، مقامی کارپوریٹر کرلا

وی او : ممبئی میں کئی بڑے شمالی ہند کے چہرے عوام کی کئی برسوں سے نمائندگی کرتے آرہے ہیں ، لیکن کئی اہم عوامی بنیادی ضروریات سے یہ مسلم بستیاں محروم ہیں ۔ ممبئی میں جو بڑے مسلم چہرے ہیں ان کے مطابق مسلم علاقوں میں کسی اچھے عوامی نمائندے کی ضرورت ۔ مطلب زیادہ سے زیادہ مسلم علاقوں میں جب لیڈر منتخب ہوکر آئیں گے تو ترقی ہوگی ۔ حالانکہ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ ہر سیاسی لیڈر آجکل محض ووٹ بینک کی سیاست کرتا ہے ۔ عوامی مفاد سے کسی کو کچھ مطلب نہیں ہے اب وہ عام عوام ہو یا ذات اور مذہب میں تقسیم سماج ہو ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سبھی سماج کے لوگ اپنے لئے ایسے نمائندے منتخب کریں جنہیں ان کی فکر ہو ان کی تکلیفوں کا احساس ہو








Shahid Ansari

Content Editor



Body:...Conclusion:...
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.