اورنگ آباد: مہاراشٹر کے تاریخی شہر اورنگ آباد میں جی ٹوئنٹی اجلاس 27 اور 28 فروری کو ہونے والا ہے اس دو روزہ اجلاس کے لیے اورنگ آباد کو سجایا سنوارا جارہا ہے۔ راستوں سے تجاوزات ہٹائے جارہے ہیں اور راستوں کی کشادگی کا کام جنگی پیمانے پر جاری ہے۔ اسی طرح شہر کے تاریخی دروازوں اور تاریخی آثار کی مرمت کی جارہی ہے ان پر رنگ و روغن اور لائٹنگ لگائی جا رہی ہے، لیکن میونسپل کارپوریشن اور ضلع انتظامیہ کی ساری توجہ محض ان راستوں اور عمارتوں پر مرکوز ہیں جو تاج دکن یعنی بی بی کا مقبرہ اور ضلع کلکٹر آفس یا ڈیویژنل کمشنر آفس کی طرف جاتے ہیں یا پھر ان راستوں کو جہاں سے بیس ممالک کے مدوبین گزریں گے، یعنی یہ جگمگاہٹ مخصوص علاقوں تک محدود ہونگی۔ شہر کے تاریخی اور سیاحت کے اعتبار سے مقبول مقامات میں بی بی کا مقبرہ کے علاوہ پن چکی بھی شامل ہے، یہ وہی پن چکی ہے جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے سیاح اورنگ آباد کا رخ کرتے ہیں سترہویں صدی میں قائم اس پن چکی کی خاص بات یہ ہیکہ چکی کو نہر عنبری سے جوڑا گیا ہے جو مختلف پہاڑوں سے گزرتی ہوئی پہنچتی ہے، نہر کا پانی لوہے سے بنی پٹیوں پر گرتا ہے جس کی وجہ سے چکی چلتی ہے، اورنگ آباد کی پن چکی دراصل حضرت بابا شاہ مسافر اور حضرت شاہ محمد سعید عرف پلنگ پوش کی خانقا ہیں۔ انھیں خانقاہوں میں ایک دور میں سینکڑوں مسافروں کے قیام اور کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا، ایک طرح سے یہاں دور دراز سے آنے والے مسافروں کے لیے لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
تاریخ کے جانکاروں کے مطابق پن چکی کی خانقاہ میں بابا شاہ مسافر کا کتب خانہ بھی تھا ۔ جس کا قیام آصف جہاں اول کے دور میں یعنی سترہویں صدی عمل میں آیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے دور کے جید عالم اور اسلامی اسکالر غلام علی آزاد بلگرامی جب اورنگ آباد آئے اور انھوں نے لائبریری دیکھی تو پھر وہ یہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ اورنگ آباد میں غلام علی آزاد بلگرامی نے سات قلمی نسخے تحریر کیے، جن میں کچھ قلمی نسخے انتہائی بوسیدہ حالت میں موجود ہیں اور غلام علی آزاد بلگرامی کے انتقال کے بعد انہیں خلد آباد میں دفن کیا گیا۔ موجودہ دور میں پن چکی سیاحت کا مرکز تو ہے ہی اس کے علاوہ پن چکی میں مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈ کا صدر دفتر بھی قائم ہے، پن چکی کی خانقاہوں کے ایک مخصوص حصے میں بزرگان دین کے تبرکات بھی محفوظ ہیں، پن چکی کی مسجد اور وضو خانہ اپنی کشادگی اور فن تعمیر کا شاہکار کہلاتے ہیں وضو خانے کے بالکل نیچے تہ خانہ ہے جو کسی زمانے میں سرائے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ، سن انیس سو اسی کی دہائی تک یہ سرائے سیاحوں کے لیے کھلے تھا لیکن بعد میں اس سرائے کو بند کردیا گیا۔
موجودہ دور میں پن چکی حالانکہ وقف بورڈ کی تحویل میں ہے لیکن جیسا کہ شہر کے تاریخی آثار کی تزئین کی جار ہی ہے اسی طرح اس تاریخی عمارت کی مرمت کو ضلع انتظامیہ نے ضروری نہیں سمجھا اب اگر جی ٹوئنٹی لیڈران پن چکی کی سیر کا ارادہ کرتے ہیں تو اس وقت میونسپل کارپوریشن اور ضلع انتظامیہ کو سبکی کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے، نمائندہ ای ٹی وی بھارت اسرار الدین چشتی نے پن چکی کی خستہ حالت کا جائزہ لیا اور سیاحوں سے بات کی تو سیاحوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اورنگ آباد کا بہت نام سنا تھا لیکن یہاں پر آنے کے بعد پتہ چل رہا ہے کہ ایک طرف شہر کو سجایا سنوارا جا رہا ہے تو دوسری پن چکی کی جانب توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : Ancient Water-Mill: اورنگ آباد کی تین سو سال پُرانی پانی سے چلنے والی پن چکی