راج ٹھاکرے کے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان کے تعلق سے متنازع اور اشتعال انگیز بیان اور مخصوص طبقے کو نشانہ بنائے جانے کے بعد مسلم دانشوروں نے اسے ہوا نہ دینے اور اس معاملے میں راج ٹھاکرے کو اہمیت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ریاستی حکومت نے معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ دلیپ ولسے پاٹل نے نام لیے بغیر اپنے ایک بیان میں کہا کہ کچھ سیاسی شخصیات ایسی ہیں جو کسی مخصوص مذہب اور طبقہ کے بارے میں بیان بازیاں کر رہے ہیں۔ اس سے ریاست اور ملک میں بدامنی کا ماحول ہے لیکن ہم اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ محکمہ پولیس ان سب پر نظر رکھ رہی ہے۔ اگر ریاست میں ان بیان بازیوں کے سبب کسی بھی طرح سے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اس تعلق سے علماء کونسل کے جنرل سکریٹری مولانا محمود دریابادی نے کہا کہ جس طرح سے مدھیہ پردیش، راجستھان اور ملک کے دوسرے حصوں میں مساجد کے سامنے جلوس کی شکل میں نعرے بازی کر کے حالات خراب کیے جا رہے ہیں، وہ سب ایک سازش کی تحت ہو رہا ہے۔ سب سے حیران کر دینے والی بات یہ کہ محض کچھ گھنٹوں میں حکومت نے مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر کے ذریعه مسمار کر دیا، یہ کہاں کا انصاف ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں ممبئی میں مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے مدارس اور مساجد میں لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے مساجد کے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا انتباہ دیا ہے۔ راج ٹھاکرے نے کہا تھا کہ اگر مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر نہیں ہٹائے گئے تو وہ ان مساجد کے سامنے ہنومان چالیسہ بجائیں گے ممبئی مین کچھ جگہوں پر لاؤڈ اسپیکر میں ہنومان چالیسہ بجائے بھی گئے تھے، جن پر پولیس نے کارروائی کی ہے۔ Not to Give Importance to Raj Thackeray