ملتوی کرنے کے اعلان کے بعد خواتین احتجاجیوں نے کہا کہ 'وہ ملک اور قوم کی سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا احتجاج ملتوی کر رہی ہیں لیکن ریاستی حکومت سے اس بات کی التجا بھی کر رہی ہیں کی ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
خواتین نے کورونا وائرس کے خطرات اور مرکزی و ریاستی حکومت کی اپیل پر ہجوم سے گریز کیا لیکن اپنے سامان اور دیگر احتجاجی ضرورتوں کو وہیں چھوڑ دیا اور کہا کہ اگر پولیس یا ایسے لوگ جو اس احتجاج کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے یا سامان اٹھانے کی کوشش کریں گے تو یہ احتجاج دوبارہ جاری کردیا جائے گا۔
فی الحال یہاں(احتجاج کی جگہ) کی کرسیاں خالی ہیں سامان جگہ جگہ نظر آرہے ہیں اور مطالبات کو لکھ کر یہاں چسپاں کیا گیا ہے جو احتجاجی خواتین کی عدم موجودگی کی کمی کو پورا کرتا نظر آرہا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے احتجاجی ضاتون ڈاکٹر وسیکا سیلیا نے کہا کہ 'احتجاج کو لے کر ہر طرف غلط فہمیاں پیدا کی جار ہی ہیں لیکن یہ احتجاج بند نہیں ہے بلکہ عارضی طور پر ملتوی کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'احتجاج کا طریقہ تبدیل ہوا ہے، احتجاج بند نہیں کیا گیا اور یہ احتجاج تب تک جاری رہے گا جب تک مرکزی حکومت ہمارے مطالبات پورا نہین کرتی۔
ڈاکٹر وسیکا نے مزید کہا کہ 'ہٹنے کے پیچھے کی وجہ انسانیت ہے نا کہ ناکامی۔ ہم نہیں چاہتے کہ کرونا جیسی مہلک بیماری سے اس خطرے سے ہم یا وہ خواتین دو چار ہوں جو نے ہمت اور حوصلے کے ساتھ یہاں ڈٹی رہیں اس محاذ کو آگے بڑھایا۔
ڈاکٹر وسیکا سیلیا نے کہا کہ 'پولیس کی ٹیم آئی تھی اور تقریباً 6 گھنٹوں تک بات چیت ہوئی اور متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا جو اس احتجاج میں رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔