مالیگاؤں شہر کو اردو ادب کا گہوارہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں اردو داں طبقے کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ اردو کے متوالوں کے اس شہر میں ایک عمارت ایسی بھی ہے جس کا نام 'اردو گھر' Urdu Ghar ہے لیکن یہ عمارت انتظامیہ کی لاپرواہی کا شکار ہے Malegaon Urdu Ghar Suffering From Negligence اور اپنی قسمت پر آنسو بہا رہی ہے۔
اس اردو گھر کا افتتاح بروقت نہیں ہوا اور یہ مختلف سرکاری عمارتوں کی طرح کھنڈر میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ Malegaon Urdu Ghar Turning into Ruin
سنہ 2014 میں مالیگاؤں کے اُس وقت کے رکن اسمبلی شیخ آصف نے ریاستی حکومت سے شہر میں ایک عالیشان 'اردو گھر' کی تعمیر کے لیے فنڈ الاٹ کرایا اور اس کی بہتر انداز میں تعمیر بھی کروائی۔
ریاستی حکومت نے 'اردو گھر' کی تعمیر کے لیے 8 کروڑ روپے کا بجٹ منظور کیا۔ 20 ہزار اسکوائر فِٹ کی اراضی کو اردو گھر کی تعمیر کے لیے منتخب کیا۔
24 اگست سنہ 2016 کو اردو گھر کی تعمیر کے لیے سنگ بنیاد رکھا گیا۔ تقریباً 5 برسوں میں اس کی تعمیر مکمل بھی ہوگئی۔ اگست 2019 میں اس کا سرکاری طور پر افتتاح ہونا تھا لیکن ٹھیک اُسی وقت اسمبلی انتخابات کا بگل بجا اور انتخابات میں آصف شیخ کی شکست ہوگئی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، اردو کے متوالوں کو ملنے والا یہ تحفہ اب تک اپنے افتتاح کا منتظر ہے اور آہستہ آہستہ خستہ حال ہوتا جا رہا ہے۔
اس اردو گھر کے لیے مختص 40 ہزار اسکوائر فٹ کی اراضی میں سے نصف اراضی پر تمام جدید سہولیات کے ساتھ اسے تعمیر کیا گیا جب کہ بقیہ جگہ پر دو پارکنگ اسٹینڈ کے علاوہ گارڈن تعمیر کیا گیا ہے۔
اس تعلق سے میونسپل کارپوریشن کے ہاؤس لیڈر اسلم انصاری نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اس اردو گھر کی تعمیر کے لیے پچھلے کئی برسوں سے سابق رکن اسمبلی آصف شیخ کی جانب سے کافی جدوجہد کی گئی تھی۔ اس اردو گھر کی تعمیر کے لیے آصف شیخ نے حکومت مہاراشٹر محکمۂ اقلیتی امور سے 8 کروڑ روپے کا بجٹ منظور کروایا تھا جب کہ اتنی خطیر رقم سے تعمیر کردہ یہ اردو گھر شروع ہونے سے پہلے ہی بند ہونے کی حالت میں چلا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ رکن اسمبلی اس اردو گھر کو اول روز سے ہی نظر انداز کررہے ہیں۔ ان کے رکن اسمبلی بنتے ہی اس عمارت کا افتتاح ہوجانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اس تعلق سے جب مالیگاؤں کے موجودہ رکن اسمبلی مفتی محمد اسمٰعیل قاسمی سے ای ٹی وی بھارت نے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ مالیگاؤں اردو گھر تعمیر ہوچکا ہے لیکن اس کا افتتاح اب تک عمل میں نہیں آیا ہے۔ مفتی اسمٰعیل نے مزید کہا کہ 'انہوں نے اس تعلق سے وزیر برائے اقلیتی امور نواب ملک اور دیگر اعلیٰ رہنماؤں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ مالیگاؤں کے اردو گھر کو جلد از جلد شروع کیا جائے اور جس مقصد کے تحت اردو گھر کو تعمیر کیا گیا ہے وہ مقصد پورا کیا جائے۔
رکن اسمبلی نے اردو گھر کو مسکان خان کے نام سے منسوب کرنے کے فیصلے کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ مالیگاؤں کے عوام اور وہ خود اس فیصلے کا استقبال کرتے ہیں۔
اردو گھر کی عمارت کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے آڈیٹوریم سمیت دیگر کمروں میں لکژری کرسیاں، ایئر کنڈیشنڈ ہال، ساؤنڈ سسٹم اور دیگر تمام جدید الیکٹرانک آلات نصب کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ لوڈ شیڈنگ کے مسئلہ کے پیش نظر 600 لیٹر ڈیزل کی استعداد رکھنے والا ایک بڑا ڈی جی سیٹ (جرنیٹر) بھی نصب کروایا گیا ہے جو بجلی منقطع ہونے کے بعد بھی اس عالیشان اردو گھر کو مسلسل پانچ دنوں تک بجلی فراہم کر سکتا ہے۔
اردو گھر کی عمارت میں تقریباً 400 سیٹس کا ایک آڈیٹوریم ہے جب کہ پہلی اور دوسری منزل پر تین چھوٹے چھوٹے ہال تعمیر کیے گئے ہیں جہاں آرٹ گیلری، کانفرنس ہال، لائبریری، اسٹڈی سینٹر اور مہمان خانہ بنایا گیا ہے جن میں اعلیٰ قسم کے فرنیچر ہیں۔
اس تعلق سے شہر کو اردو گھر جیسی عالیشان عمارت دینے والے سابق رکن اسمبلی شیخ آصف نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا تھا کہ 'اردو گھر صرف لائبریری تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہاں دینی و سماجی اجلاس، تعلیمی و ثقافتی پروگرام، ڈرامے، مشاعرے سمیت دیگر پروگرامز بھی منعقد کیے جا سکتے ہیں'۔
فی الحال شیخ آصف، رکن اسمبلی تو نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ اس 'اردو گھر' کو جاری کروانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے ریاستی وزیر برائے اقلیتی امور نواب ملک سے ملاقات بھی کی تھی جس میں ریاستی وزیر نے یقین دہانی کروائی کہ کورونا وبا سے ریاست میں پیدا شدہ حالات جب معمول پر آئیں گے تب اس اردو گھر کا باقاعدہ طور پر افتتاح کیا جائے گا۔