اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے مجید میمن نے کہا کہ عین انتخابات کے وقت ان رہنماؤں کو بھارت رتن دینے کا بھارتیہ جنتا پارٹی کو کیسے خیال آیا اس کا جواب مہاراشٹر کی عوام 21 اکتوبر کو دے گی۔
ایڈوکیٹ مجید میمن نے مزید کہا کہ انتخابی منشور میں ریاست کے ایک کروڑ بیروزگار نوجوانوں کو بی جے پی نے روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے، یہ بھی محج ایک انتخابی دھوکہ ہے کیونکہ سنہ 2014 میں جب بی جے پی اقتدار میں آئی تھی تب وزیراعظم نریندر مودی نے بھی ہر برس ایک کروڑ افراد کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن روزگار دینا تو دور کی بات لاکھوں افراد کو حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔
مجید میمن نے کہا کہ پورے ملک کو سنگین معاشی حالت سے گزرنا پڑ رہا ہے، خود وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کے شوہر نے حکومت کی غلط پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ابھیجیت بینرجی (نوبل انعام یافتہ)نے بھی نوٹ بندی کے خلاف آواز اٹھائی ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مرکزی حکومت تمام محاذ پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کالا دھن روکنے کے نام پر محض دو گھنٹہ کے اندر ایک ہزار کی نوٹ پر پابندی لگا دی اور پھر اس کے بعد پورے ملک نے جو تکلیف اٹھائی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے،
انہوں نے مزید کہا کہ نوٹ بندی کے دوران حالات اتنے خراب ہو گئے تھے کہ جس وقت وزیر اعظم کا یہ فیصلہ آیا اس کے بعد سے ملک بھر میں لوگ کھانے کو ترس گئے نیز علاج کے لیے لوگوں کو بھی بہت تکلیف آئی لیکن اس کی وجہ سے کالا دھن سامنے نہیں آیا۔
مجید میمن نے کہا کہ پورے ملک کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر کی حالت بھی ان کی پالیسیوں کی وجہ سے خراب ہو گئی ہے، پونے میں ماروتی کمپنی بند ہوگئی جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بیروزگار ہو گئے جبکہ یہی حالات پورے ملک کے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معاشی طور پر ہم کمزور ہوتے جا رہے ہیں اس کے علاوہ بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔
مجید میمن نے وزیراعظم کے سب کس ساتھ سب کا وکاس کے نعرے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ وزیر اعظم روزانہ نئے نعروں کے ساتھ عوام سے وعدہ کرتے ہیں لیکن ان کے وعدے میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی ہے۔