لیکن اہم سوال یہ ہے کہ یہ علامتی قربانی کیا ہے؟ یہ سوچ کہاں سے آئی؟ اس سوچ اور اس کی تخلیق کس نے کی۔ اس سوال کا جواب نا تو ہمارے پاس ہے اور نا ہی مسلم اراکین اسمبلی کے پاس۔ نا ہی وہ اس کا مطلب سمجھ رہے اور ناہی سمجھا پا رہے ہیں۔
کئی اراکین اسمبلی سے ہم نے بات کی۔ کئی نے فکر جتائی لیکن جسے فکر ہونی چاہئے اس نے اس مذہبی فریضے کو لیکر طنز کیا۔ طنز سے زیادہ مذاق کیا۔ قربانی کے سوال پر کہا کہ قربانی اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔ ہاں قربانی اللہ کو پیاری ہوگئی۔ یہ الفاظ ہیں ریاست کے مسلم وزیر نواب ملک کے۔
ملک سے جب ہم نے اس اہم فریضے کو لیکر بات کی تو نواب ملک کا رویہ بہت سخت تھا۔ اُنہوں نے قربانی کے موضوع سے لگاتار کنارہ کشی اختیار کرتے نظر آئے۔ اُنہوں نے قربانی کو لیکر کہا کہ یہ کوئی اہم معاملہ نہیں ہے۔ اہم معاملات دوسرے ہیں۔
ہم نے ریاستی وزیر حسن مشرف سے بھی بات کی لیکن مشرف کا قُربانی پر بات کرنا ایسا لگتا ہے یہ حکومت کے سامنے کسی گناہ عظیم سے کم نہیں ہے۔ مشرف سے علامتی قربانی کا جب سوال کیا گیا تو انہوں کنارہ کشی اختیار کر لی۔
مزید پڑھیں: مہاراشٹر: قربانی کے لیے حکومتی گائیڈ لائنز پر تذبذب برقرار