لاک ڈاؤن کے سبب ہر شعبہ بری طرح سے متاثر ہوا ہے، خاص طور پر اس وقفے میں لوگوں کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا ۔اس مالی بحران کے نتیجے میں کئی بچوں کو فیس نہ بھرنے کی وجہ سے اسکول یا کالج چھوڑنا پڑا ہے۔اسی پس منظر میں آل انڈیا پیرنٹس اسٹوڈنٹس رائٹس ایجوکیشن نامی غیر سرکاری تنظیم نے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن کے سبب ہونے والی مالی بحران کو دیکھتے ہوئے اسکول کی فیس کے حوالے سے قانون نافذ کرے۔
ممبئی کی رہنے والی جانکی آنند پیشے سے وکیل ہیں، لیکن لاک ڈاؤن نے ان کےپیشے کو بھی متاثر کیا ہے۔اس دورانان کے بچوں کی اسکول کی فیس کو لے کر انہیں اسکول کی جانب سے پریشان بھی کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ بچے آدھے گھنٹے آن لائن پڑھائی کرتےہیں، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ جب تک والدین کے پاس پیسے نہیں ہوں گے وہ اسکول انتظامیہ کو کیسے فیس ادا کریں گے۔اسی لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت فیس کو لیکر قانون بنائے، تاکہ والدین کو کچھ راحت ہو۔
اسی صف میں ممبئی سے متصل ڈومبیوالی علاقے کے رہنے والے سچن چنچولکر نے اسکول سے مطالبہ کیا تھا کہ لاک ڈاؤن میں کم از کم 50 فیصد فیس معاف کی جائے، لیکن اسکول نے اس سے انکار کردیا۔اس لیے اب سچن کا بھی مطالبہ ہے کہ کم از کم 50 فیصد فیس کی رعایت دی جائے۔
آل انڈیا پیرنٹس اسٹوڈنٹس رائٹس ایجوکیشن انچارج ڈاکٹر فیضان عزیزی نے حکومت سے یہ مانگ کی ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن کے سبب ہونے والی پریشانیوں کو دیکھکر اسکول فیس کے لیے کچھ خطر خواہ راستہ نکالے۔حکومت جیسے پنچایت الیکشن کے حوالے سے آرڈیننس لاسکتی ہے تو حکومت فیس کے لیے کوئی آرڈیننس کیوں نہیں لے کر آسکتی ہے۔ہم صرف والدین کی جانب سے بات نہیں رکھ رہے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اسکول انتظامیہ کے خرچ میں بھی رعایت دے۔
لاک ڈاؤن کے سبب کئی محکمے نے ورک فرام ہوم جیسے راستے کو اپنایا ہے۔تعلیمی اداروں نے آن لائن خدمات کا سہارا لیا اور آن لائن ایجوکیشن سے طلبہ کو آرستہ کیا، لیکن ان لائن ایجوکیشن ہونے کے باوجود والدین سے فیس پوری پوری وصول کی جا رہی ہے۔