مرکزی حکومت کی جانب سے ریلوے کی خدمات شروع کرنے کے فیصلے اور مرکزی وزارت صحت کے جوائنٹ سکریٹری لَواگروال کے’ کورونا کے ساتھ رہنا سیکھنے‘ کے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے کورونا کے خلاف جنگ میں ہاتھ اٹھ ادیے ہیں اور اس شدید بحران کے دور میں اس نے ملک کو رام بھروسے چھوڑ دیا ہے۔
کیا مرکزی حکومت کے پاس اب کوئی حل نہیں بچا ہے؟یہ سوال کرتے ہوئے مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری اور ترجمان سچن ساونت نے کہا ہے کہ ریاستی حکومت اس لڑائی کو جاری رکھے گی۔
میڈیا کے لیے جاری اپنے بیان میں سچن ساونت نے کہا ہے کہ کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے ٹیسٹنگ کی تعداد بڑے پیمانے پر بڑھانے کی ضرورت تھی، جو بدقسمتی سے نہیں بڑھا ئی گئی۔ جتنی بڑی تعداد میں ٹیسٹ ہونا چاہیے اتنا نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے تین بار لاک ڈاون کرنے کے بعدبھی مودی حکومت اس کا بہتر استعمال کرنے میں ناکام رہی ۔ج
انہوں نے کہا کہ جنوری میں ہی کورونا نے ملک میں دستک دیدیا تھا ۔ اگر فروری سے ہی وزیراعظم مودی بیدار ہوگیے ہوتے اور منصوبہ بند طریقے سے کام کیے ہوتے تو بحران اتناشدید نہیں ہوا ہوتا۔ لیکن مودی کو کورونا سے زیادہ ’نمستے ٹرمپ‘ اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت گراکر بی جے پی کی حکومت لانا زیادہ اہمیت کا حامل لگا۔
مہا بھارت کی جنگ 18 دن میں جیتی گئی تھی۔ کورونا کے خلاف جنگ ملک کی 130کروڑ عوام کے سہارے نریندرمودی نے 21دنوں کے لاک ڈاون میں جیتنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس لاک ڈاون کے آج 48 دن گزر چکے ہیں لیکن وہ اس جنگ کو نہیں جیت سکے ہیں۔ مودی حکومت نے ریاستی حکومتوں کی جانب مدد کا ہاتھ تک نہیں بڑھا یا ۔
مہاراشٹر نے جی ایس ٹی کے 16ہزار کروڑ روپئے اور 25 ہزار کروڑ روپے کے پیکیج کا مطالبہ کیاتھا، لیکن مرکزی حکومت نے ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں دی۔ مہاراشٹر سمیت دیگرریاستوں نے بھی مرکز سے امداد طلب کی لیکن انہیں بھی کچھ نہیں ملا۔ چاہے طبی سازوسامان کی فراہمی کا معاملہ ہو یا پھر معاشی امداد کا، ریاستی حکومتو ں کی مدد کرنے میں مرکز نے اپنے ہاتھ اٹھادیے اور تمام طرح کے طبی فیصلوں کا اختیار اپنے پاس رکھ کر ریاستی حکومتوں کو وعدہ فردا پر رکھ دیا گیا۔
چین سے درآمد کی جانے والی ٹیسٹنگ کٹس بھی کم معیار کی تھیں۔ اس مدت کے دوران مرکزی حکومت نے جو بھی فیصلے کیے ہیں وہ غلط ثابت ہوئے ہیں۔