مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی سے متصل مسلم اکثریتی شہر ممبرا میں ادبی میلہ کے آخری دن پروگرام میں فلم رائٹر و معروف شاعر جاوید اختر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی زبان کا بھی رسم الخط نہیں ہے سوائے اردو کے۔
حالانکہ اردو کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے کہ اس زبان کو مسلمانوں کی زبان بنا دیا گیا، جب کہ زبان مذاہب کہ نہیں بلکہ ملکوں کی ہوتی ہے، لیکن اردو کے ساتھ ایسا سوتیلا سلوک کر کے اسے نقصان پہنچا یا گیا، یہ زبان انگریزوں کے ٹو نیشن ٹو تھیری کا شکار ہوگئی مگر کافی کوشش کے بعد بھی آج تک مری نہیں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ سوتیلا سلوک کے بعد بھی، وہ شخص بھی اردو بولتا ہے جسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اردو بول رہا ہے،
1798 مین قرآن کا ترجمہ سندھی زبان میں ہوا تھا، جس پر علماء نے اعتراض کیا تھا، حالانکہ دنیا میں جتنی زبانیں ہیں سب میں شاعری کہی گئی ہے، لیکن سب مذہبی ہیں ،لیکن اردو واحد زبان ہے جو پہلے دن سے ہی غیر مذہبی ہے۔
زبان میں دیکھا جائے تو ہندی اور اردو ایک ہی زبان ہے، آج بھی دیہاتوں میں عام طور سے روزمرہ کی زندگی اردو بولی جاتی ہے ۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ علم خون کے ذریعہ نہیں آتا ہے، لیکن آپ کے کام کے اثرات بچوں پر ہوتا ہے، کیوں کہ بہت سارے شاعروں و ادباء کا ان کے بچوں میں اثر نہیں دکھائی دیتا اور بہت میں ہے ،جاوید اختر نے کہا کہ آج زبان کے تحفظ کی ضرورت ہے اور وہ کام زبان والے ہی کرسکتے ہیں۔