دس دسمبر کو عالمی یوم انسانی حقوق کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جس قدر انسانی حقوق پر گفتگو ہورہی ہے اسی تناسب یا اس سے زیادہ اس کی پامالی کی شکایتیں عام ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حقوق انسانی کی بدترین پامالیوں کے اسباب کا پتہ لگا کر اس کا حل پیش کرنے کے ساتھ ہی انسانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے عملی صورت گری کی جائے ۔
جماعت اسلامی ہند ہمیشہ سے انسانی حقوق کے لیے جد و جہد کرنے والوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے ۔ چنانچہ آج 10 دسمبر کو یوم حقوق انسانی کے موقع پر جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر اور اے پی سی آر نے مشترکہ طور پر کئی اہم پروگرام کا انعقاد کیا۔ جس میں سماجی کارکن، وکلا اور حقوق انسانی کے کارکنان نے اپنے خیالات پیش کئے ۔
اس سلسلے میں جماعت اسلامی مہاراشٹر کے شعبہ قیام عدل و قسط کے سکریٹری عبد المجیب نے بتایا کہ ہم اس موقع پر ممبئی کی پریس کانفرنس کے ذریعہ حقوق انسانی کے تحفظ کے تئیں عوام الناس کوبیدار کرنے کے ساتھ ہی حکومت کو بھی متوجہ کرنا ہمارے پیش نظر ہے کہ حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے اپنا دستوری حق ادا کرے ۔
عبد المجیب نے بتایا کہ خطبہ حجتہ الوداع پر نبی ﷺ کے ان احکامات جو انسانیت کا پہلا منشور ہیں۔ اور جس کی وجہ سے دنیا میں انسانوں کے حقوق تسلیم کیے گئے وال ہینگنگ کی شکل میں شائع کرکے جگہ جگہ لگارہے ہیں تاکہ عوام محسن انسانیت کے انسانوں پر احسانات کو جان سکیں۔اس کے علاوہ جماعت نے اپنے سارے یونٹ سے کہا کہ وہ جیلوں کا دورہ کریں اور وہاں جو قیدی زر ضمانت کے چند روپیوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے قید ہیں۔ ان کی رہائی کے انتظامات کیے جائیں ۔
پریس کانفرنس کے اہم مقررین میں حقوق انسانی کے لیے زندگی وقف کردینے والے رام پنیانی(سابق لیکچرر بائیو میڈیکل انجینئرنگ آئی آئی ٹی)نے آئین کے چار نکات آزادی، مساوات،بھائی چارہ اور انصاف کی یاد دہانی کرواتے ہوئے گفتگو شروع کی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین،مذہب اور ذات کے نام پر ہمارے ملک میں انسانوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔صحیح راستے پر لانے کی کیا حکمتِ عملی ہو،اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ سماج میں نفرت کی کوئی جگہ نہ ہو۔ دلتوں، آدی واسیوں پر ظلم کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں قانون محض کاغذ پر نہ رہے اس کو نافذ کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔سماج میں محبّت کا پیغام عام کرنے سے ہی اس پر قدغن لگے گا۔
ایڈوکیٹ مجید میمن نے کہا کہ ہر فرد کو با عزت، با وقار اور خوش حال زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے ۔اس حق کے حصول کے لیے عوام کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور ایسے اجلاس یا دیگر عوامی بیداری کے پروگرام اسی مقصد کے تحت منعقد کیے جاتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ آج یوم انسانی حقوق ہے ۔ لیکن ملک کی آبادی کے 80 فیصد کو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ آج کوئی ایسا دن ہے جس دن ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں ۔ ملک میں انسانی حقوق کی بقا کو درپیش چیلنجز کو سمجھنے اور اس کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں کہا کہ خیر سے کچھ تنظیمیں ایسی ہیں جو انسانوں کے حقوق کے تعلق سے گفتگو کرتی ہیں ۔
مجید میمن نے مودی حکومت کے متضاد رویہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ایک جانب یہ دستور ہند کی کاپی پر عقیدت کے پھول چڑھاتے ہیں اور دوسری جانب وہ دستوری عمارت یعنی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی سنگ بنیاد رکھتے ہوئے ہندو عقیدے کے مطابق پوجا کرتے ہیں۔ جو کسی دستوری عہدہ پر فائز شخصیت کو زیب نہیں دیتا ۔
جماعت اسلامی ہند حلقہ مہاراشٹر کے سکریٹری ظفر انصاری نے حقوق انسانی کے تعلق سے کہا کہ دنیا میں بسنے والے ہر انسان کے حقوق ہیں لیکن آج کی اس نام نہاد مہذب دنیا میں بھی طاقتور طبقہ کے ذریعہ کمزوروں کے حقوق عام طور پر پامال کیے جا رہے ہیں ۔ ایسے تو ہر وقت ہم مظلوموں کے ساتھ ہیں لیکن خاص یوم حقوق انسانی کے موقع پر ہم دنیا کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دنیا سے تشدد اس وقت ختم ہوگا جب سب کے ساتھ انصاف ہوگا لہذا ایک پر امن دنیا کے لیے ہم سب کو مل کر ایک تمام مظلوموں کو ان کا حق دلانا ہوگا ۔
اے پی سی آر مہاراشٹر کے ذمہ دار اسلم غازی کے مطابق حقوق انسانی کا تحفظ عین اسلام ہے، اور ساری قوموں اور تنظیموں کو اسکے تحفظ کیلئے متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔انسانی حقوق ہم سب کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن مادیت پرستانہ اور خود مرکزی سوچ سے باہر نکل کر اجتماعی ذمے داری کی فکر کرنی چاہیے۔
انہوں نے پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج حکومت یا بااثر طبقہ کو انسانوں کے حقوق دبانے کا موقع اس لیے مل رہا ہے کیوں کہ ہم نے اپنے معمولی مفاد کی خاطر اپنا ووٹ محض چند روپیوں اور شراب کی ایک بوتل کے بدلے فروخت کردیا ۔ اس لیے ہم بھی حقوق انسانی کی موجودہ پامالی کے لیے ذمہ دار ہیں ۔ ہم نے اپنی ذمہ داری سمجھی ہوتی تو ایسا نہیں ہوتا ۔
یوسف مچھالہ(قومی صدر اے پی سی آر) نے اپنی گفتگو کا آغاز آسٹن کے بیان سے کیا ، انہوں نے کہا کہ انسانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہمیں سماجی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہم ناکام ہوئے ہیں۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ہماری جوڈیشری، عدلیہ، سیاسی حکام جو ذمہ داری قبول کرنے سے پہلے حلف لیتے ہیں کیا انہوں نے حلف لیتے ہوئے جن ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر لیا تھا اسے پورا کیا؟ آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو، اس کے لیے ہمارے پاس حفاظتی اقدامات موجود ہونے چاہیے۔
اختتام پر جسٹس کولسے پاٹل (ریٹائرڈ جسٹس،ریاستی کنوینر الائنس اگینسٹ سی اے اے این آر سی این پی آر)نے کہا کہ ہمیں ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جس کے ذریعے بڑے پیمانے پر استحصال کے خاتمے کی جدوجہد کی جا سکے۔ جس سماج کے تمام طبقات کی شمولیت ہو۔ افسوس کی بات ہے کہ جو جاہل اور بدکار قسم کے انسان ہیں وہ ملک کو چلانے کا کام کر رہے ہیں آج اُنہیں اکرام وعزت میسر ہے اور سماج کے ایسے افراد جو سماج میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں،اُن کو وہ مقام حاصل نہیں۔یہ ہماری اپنی کمی ہے کہ ہم آج تک عوام کو یہ نہیں بتاسکے کہ کون صحیح اور کون غلط ہے ۔
انہوں نے وزیر اعظم کی ایک تقریر کا حوالہ دے کر کہا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے سو کروڑ لوگوں کو گھر کی چابی دی ، اتنا بڑا جھوٹ بولا جارہا ہے اور کوئی عوام کو یہ بتانے والا نہیں کہ یہ جھوٹ ہے ۔انہوں نے عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ سب سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لائے بغیر ملک میں اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو انصاف مل ہی نہیں سکتا ۔