اورنگ آباد: اورنگ آباد گورنمنٹ آرٹس، سائنس کالجس کالج کا نام مدرسہ فوقانیہ ہوا کرتا تھا جو عثمانیہ یونیورسٹی کے تحت چلایا جاتا تھا۔ 1923 میں اس فوقانیہ مدرسے میں اردو، انگلش، مراٹھی سنسکرت اور ہندی زبان سکھائی جاتی تھی, ان سو سالوں میں اس تعلیمی ادارے میں کئی ساری تبدیلیاں ہو چکی ہے۔ لیکن کالج کی سو سالہ پرانی لائبریری میں آج بھی کئی ساری انمول کتابیں دستیاب ہے۔
اورنگ آباد گورنمنٹ آرٹس، سائنس کالج کی سو سالہ جشن تاسیس منائی جا رہی ہے، اس کالج کی بنیاد 1923 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق نے رکھی تھی۔ اورنگ آباد گورنمنٹ آرٹس سائنس کالج کی پرنسپل ڈاکٹر روہینی کلکرنے کا کہنا ہے کہ ان کی کالج کی بنیاد نظام دور حکومت میں رکھی گئی تھی اس وقت دکن میں تین ہی کالج ہوا کرتے تھے۔ جانکاروں کا کہنا ہے کہ مولوی عبدالحق نے حیدرآباد کے ایک اسکول میں ملازمت کی۔ اس کے بعد صدر مہتمم تعلیمات ہو کر اورنگ آباد منتقل ہو گئے اسی دوران 1923 میں مدرسہ فوقانیہ اشرفیہ اور انگریزی ہائی اسکول اورنگ آباد کو یکجا کرتے ہوئے اورنگ آباد انٹر میڈیٹ کالج کا قیام عمل میں آیا، کیونکہ پہلے دسویں کامیاب ہونے کے بعد طلبہ و طالبات کو حیدرآباد میں گیارہویں اور بارہویں کے لیے جانا پڑتا تھا۔
اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے اورنگ آباد عثمانیہ کالج آف اورنگ آباد کے نام سے معروفیت کی منازل طئے کرتا ہوا آج گورنمنٹ کالج آف آرٹس اینڈ سائنس کے نام سے جانا جانے لگا ہے۔ مولوی عبدالحق نے صدر مہتمم تعلیمات سے استعفیٰ دے کر اس کالج کے پہلے پرنسپل کے عہدے کو قبول کرتے ہوئے اس کالج کی پوری ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ اور اس طرح سے مولوی عبدالحق صاحب کی زیر نگرانی یہ ایک چلنے لگا۔ اس ادارے میں اردو، انگلش سنسکرت، مراٹھی، ہندی پانچ زبانیں سکھائی جاتی تھی اس دوران سبھی مذاہب کے لوگ اس ادارے میں پڑھتے تھے اور اسے گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ بھی کہا جاتا تھا۔
ان سو سالوں میں اس ادارے میں کئی سارے اتر چڑھاؤ ہوئے ہیں کالج کا نام بدلا گیا ہے لیکن آج بھی اس کالج کے پرنسپل کے کیبن میں عثمانیہ یونیورسٹی کا لوگو موجود ہے جو پرنسپل کی چیئر کے پیچھے ڈسپلے میں لگا ہوا ہے۔ کالج پرنسپل کلکرنی کا کہنا ہے کہ ان کی لائبریری میں کئی ساری 100 سالہ قدیم کتابیں آج بھی موجود ہے۔ جو نایاب کتاب ہے۔ پرنسپل کا کہنا ہے کہ آزادی کے وقت بھی کئی سارے موومنٹس اسی کالج سے ہوئی تھی جس میں "وندے ماترم" نعرے کی شروعات بھی یہاں سے ہوئی تھی، جس کے بعد کئی سارے طلبہ و طالبات کا ایڈمیشن کالج سے نکال دیا گیا تھا، اور کالج انتظامیہ کی جانب سے ان پر سخت کاروائی بھی کی گئی تھی، لیکن ملک بھر میں اس نعرے کو اب اہمیت دی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں: مولانا آزاد کالج میں پہلی بار گریجویشن ڈے منایا گیا
اس کالج کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ یہ مراٹھواڑہ یونیورسٹی میں شامل ہونے والا پہلا کالج ہے۔ اسی کالج نے ملک کو کہیں سارے نامور شخصیات کی یاد بھی دی ہے۔ جنہوں نے کالج کے ساتھ ساتھ ملک کا بھی نام روشن کیا۔ کالج کے پرنسپل کا کہنا ہے کہ انہیں بہت خوشی ہوتی ہے جب ان کے کالج کے سابق طلبہ و طالبات کالج میں آتے ہیں۔ کالج کی پرنسپل کلکرنی کا کہنا ہے کہ آج جہاں کالج میں لاکھوں روپے فیس لی جاتی ہے، تو وہی اس گورنمنٹ کالج میں کم خرچ میں اعلی تعلیم بچوں کو دی جا رہی ہے، جس سے طلبہ و طالبات نے فائدہ اٹھانا چاہیے۔