ممبئی: آر ٹی آئی سے حاصل کی جانے والی جانکاری میں مارچ 2023 تک، مجموعی طور پر 364 معاملے منظوری کے لیے حکومت کی اجازت کے منتظر ہیں۔ اس سے بھی حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے 356 پابندیاں 120 دنوں سے زیر التواء ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس طرح سے اجازت نہ دینا اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ جو حکومتی اہلکار بدعنوانیوں میں شامل ہیں۔ اُنہیں تحقیقات سے بچانے کی ممکنہ کوشش کوئی اور نہیں بلکہ حکومت خود کر رہی ہے۔ بدعنوانی کی روک تھام ایکٹ 1988 کی دفعہ 17A، جسے 2018 میں لاگو کیا گیا تھا، ان قوانین کے مطابق یہ ضروری ہو گیا ہے کہ جس کسی سرکاری ملازم کے خلاف اے سی بی کو تحقیقات کرنی ہے اُسے اُس کے محکمہ کے اعلیٰ افسران حکومت سے اجازت لیتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ اس افسر کو بچانے کے لیے ایک حکومتی طریقہ ڈھونڈ نکالا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اس قانون کی پہلی اجازت دو مراحل میں لیے جاتی ہے۔ انکوائری شروع کرنے کے لیے پہلی منظوری درکار ہوتی ہے اور اس کے بعد ملزم کے خلاف الزامات دائر کرنے کے لیے ایک اور منظوری درکار ہوتی ہے۔ اس دوران اجازت نہ ملنے کے سبب ملزم کے خلاف چارج شیٹ داخل کرنے میں اینٹی کرپشن بیورو کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جانکاری میں جو بات سامنے آئی ہے اس میں شہری ترقیات محکمہ میں 90 زیر التوا منظوریوں کی اجازت اب تک حکومت نے نہیں دی۔ جب کہ محکمۂ محصول میں 45، اور محکمۂ دیہی ترقی میں 41 زیر التوا معاملے ہیں۔ دی ینگ وِسل بلوز فاؤنڈیشن کے کارکن جیتندر گھاڈگے کے مطابق سن 2018 میں بدعنوانیوں میں شامل افسران پر کارروائی کرنے کے لیے جو قانون نافذ کیا گیا اُس ایکٹ کو اب سرکاری افسران یا حکومت خود ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور اس طریقے سے اینٹی کرپشن بیورو کی جانچ اور محنت دونوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
اگر حکومت بدعنوان اہلکاروں کی تحقیقات کے لیے اجازت دینے میں اس طرح سے تاخیر کر رہی ہے یا اجازت دینے سے انکار کرتی ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اے سی بی کس مقصد کے لیے کام کرتا ہے؟ بدعنوانی کے خاتمے کے بارے میں سیاسی بیان بازی اور اقتدار میں رہتے ہوئے بدعنوانوں کے تحفظ کے لیے کی جانے والی ترامیم کے درمیان اس تضاد نے ملک کے لوگوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ گھاڈگے کے مطابق عوام جو طویل عرصے سے سیاسی جماعتوں کی طرف سے بدعنوانی کے خلاف جاری جنگ میں یقین رکھتے ہیں اب خود کو مایوس اور حکومت میں رہنے والوں کی ایمانداری پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں اور یہی سبب ہے کہ بدعنوانی سے لڑنے کے لیے حکومت کے دعوؤں پر عوام کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔