حیرانی بھی ہوتی ہے اور یقین بھی نہیں ہوتا کہ جس خاتون کو ہمیشہ اس سماج میں عورت ہونا معیوب سمجھ کر اسے کنارہ کشی اختیار کرنے کے لئے اور گھر کی چہار دیواری کے پیچھے قید ہونے کے لئے کہا جاتا ہے۔ وہیں عورت آج نہ کتنے لوگوں کی کفالت کر رہی ہیں۔
چہرے پر حجاب پہنے، برقع زیب تن کیے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ یہ دوشیزہ نکہت محمدی ہیں۔ جو مردوں کے شانہ بہ شانہ اور قدم سے قدم ملا کر ممبئی کے لاک ڈاؤن میں پھنسے لوگوں کو کھانا کھلا رہی ہیں۔
ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقہ بشتی محلہ میں سنی مسلم گھانچی جماعت خانے میں لاک ڈاؤن کے بعد سے ہی کھانا بنانا اور ہر اس علاقے میں بھوکوں تک پہنچانے کی زمہ داری انہوں نے لی ہے ۔
نکہت محمدی نے ای ٹی وی بھارت سے اس بارے میں بتایا کہ آغاز محض کچھ لوگوں سے ہوا آج یہ تعداد ایک لاکھ کے قریب ہونے کو آئی ہے ۔
نکہت کی خواہش ہے کہ یہ تعداد ممبئی میں ان پانچ لاکھ لوگوں تک رسائی ہو، جو بھوکے رہتے ہیں۔ ان میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ ویج خانے ہی بنائے جاتے ہیں ۔
کورونا کے چلتے صرف کھانا ہی نہیں تقسیم ہوتا بلکہ کورونا سے احتیاط برتنے کے لئے حکومت نے ہدایتیں دی ہیں، اس پر پوری طرح سے عمل بھی کیا جاتا ہے۔ منہ پر ماسک کے ساتھ۔ ساتھ ہاتھوں میں گلفز اور سر اور بدن پر کورونا وائرس کے اثر سے بچنے کے لئے مخصوس لباس
کھانا بنانے والے خانے کی پیکنگ کرنے والے ہر ایک حکومت کی اس ہدایت پر عمل کر رہی ہیں۔
مفتی یحییٰ معین کہتے ہیں کہ ہم غفلت اور لاپرواہی میں جیتے ہیں، بھید بھاو کے ساتھ جیتے ہیں لیکن ایسے حالات میں ہمیں احساس ہوتا ہے۔ اس خدمت خلق میں کئی غیر سرکاری تنظیمیں جڑی ہیں۔
ممبئی کے متعدد علاقوں کے ساتھ۔ ساتھ ممبئی سے متصل علاقوں میں بھی یہاں سے کھانا سپلائی کیا جاتا ہے، بھوک کا کوئی مذھب نہیں ہوتا ۔
اگر یہ بات ہر ایک شخص ذہن نشیں کر لے تو ممکن ہے کہ اس کے اندر بھی اس طرح کا جذبہ پیدا ہوگا۔
جس کی مثال ایک یہاں دیکھنے کو ملی ہے، جسے ایک خاتون کی سربراہی میں لوگ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔