لاک ڈاؤن کے دوران اورنگ آباد کے دولت آباد میں 500 ایکڑ پر پھیلی انجیر اور جام کی کھیتی متاثر ہوئی ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب سینکڑوں باغات کی فصل برباد ہوگئی۔
جو انجیر سو روپے فی کلو فروخت ہوتے تھے۔ وہ آج محض 30 روپے فی کلو فروخت ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ دولت آباد انجیر اور جام کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ ملک اور بیرون ممالک میں ان پھلوں کی مانگ ہے لیکن لاک ڈاون کا اثر یہ ہوا کہ کسانوں کی سیکڑوں ایکڑ کھیتی پر انجیر اور جام کی فصل تیار ہونے کے باوجود بازار تک نہیں پہنچ پائی۔
آج انجیر کی کاشت کرنے والے کسان دانے دانے کو محتاج ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ کسان کم قیمت پر انجیر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ای ٹی وی بھارت کی ٹیم نے ان کسانوں سے بات چیت کی۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران ایک کسان نے بتایا کہ ان کی انجیر کی کھیتی 5 ایکڑ زمین میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہر سال انجیر 80 یا 90 روپئے فروخت کرتے تھے۔ لیکن اس برس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہم 20 روپے کلو انجیر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔جہاں انجیر کی کھیتی سے ہمیں 4 لاکھ روپے کا منافع ہوتا تھا، وہیں اس برس ہمیں کوئی منافع نہیں ہوا ہے۔
ایک دوسرے کسان نے بتایا کہ ہر سال ہم انجیر کو ناسک، چالیس گاؤں، دھولیہ اور جلگاؤں تک برآمد کرتے تھے، لیکن اب اس لاک ڈاؤن میں انجیر کو دوسری جگہ نہیں برآمد کیا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ موسم گرما میں جوس کی دکانوں میں انجیر کو 100 روپے کلو فروخت کرتے تھے، جس سے ہمارا خرچ آسانی سے نکل جاتا تھا، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ دوکانیں بھی بند رہیں جس کی وجہ سے کئی انجیروں کو خراب ہونے کی وجہ سے یا تو پھینکنا پڑا یا پھر انہیں کم قیمت پر فروخت کرنا پڑا۔
اس معاملے میں دولت آباد کی نائب سرپنج نے بتایا کہ یہاں 7 گاؤں میں انجیر کی پیداوار ہوتی ہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو انجیر 70 یا 80 روپے فی کلو فروخت کرتے تھے وہ ہمیں 25 روپئے فی کلو فروخت کرنا پڑا۔ان انجیروں کو ہمیں مقامی سطح پر ہی فروخت کرنا پڑا۔جس سے ہمارے کاشتکاروں کو کافی نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں انجیر کی کھیتی 500 ایکڑ پر کی جاتی ہے۔اس لاک ڈاؤن میں ہمیں لاکھوں کا نہیں بلکہ کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو جلد از جلد ان کاشتکاروں کے حوالے سے کچھ فیصلہ لینا چاہیے اور ان کی مدد کرنی چاہیے۔