مومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس ( ایم پی جے) نامی تنظیم کے کارکنان نے حق برائے تعلیم قانون کے تحت انگریزی میڈیم کے پرائیویٹ اسکولوں میں 20 فیصد کمزور اور اقلیتی طبقہ کے بچوں کی مفت تعلیم کے لئے شروع ایڈمشن پورٹل کی سست رفتاری اور اسکی تشہیر کو لیکر ریاستی وزیر تعلیم ونود تاوڑے کو پرانت آفیسر کے توسط سے اسکی مدت بڑھائے جانے کے مطالبہ کا ایک مکتوب روانہ کیا ہے۔
ایم پی جے کے مقامی صدر ڈاکٹر انتخاب انصاری نے بتایا کہ رواں تعلیمی سال کے لئے جاری داخلہ لینے کے مراحل میں تکنیکی خامیاں تو ہے ہی ساتھ میں نجی اسکولوں میں غریب، اور پسماندگی افراد کے لئے مفت تعلیم حاصل کرنے کے قانون سے اکثریت نابلد ہے۔
یہ قانون 2009 میں نافذ ہوا تھا دس برس گزر جانے کے بعد بھی غریب و پسماندہ افراد کی ایک بڑی تعداد اس قانون سے نابلد ہے۔
ڈاکٹر انصاری کے مطابق حکومت کو ہر تعلیمی سال کے آغاز اے قبل ہی اس کی تشہیر کرنا لازمی ہے لیکن اس معاملے میں محکمہ تعلیم کی طرف سے کوئی بھی کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔
ڈاکٹر انصاری کا مزید کہنا ہے کہ ہر برس ایم پی جے ریاست کے مختلف حصّوں میں معلوماتی و رہنمائی حاصل کرنے کے مراکز قائم کرتی ہے جس میں عوامی بیداری سے لیکر آن لائن ایڈمشن فارم بھرنے کا کام انجام دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ حق برائے تعلیم قانون کے تحت مہاراشٹر حکومت نے ریاست کے نجی اسکولوں میں سماج کےمعاشی طور پر کمزور اور پسماندہ طبقات کے طلباء کے لئے 20 فیصد مخصوص نشستوں پر داخلے کی کارروائی شروع تو کر دی ہے۔
مگر داخلہ کے لئے آن لائن ایڈمشن پورٹل کی سست رفتاری اور ویب پورٹل کے ٹھیک طرح سے کام نہیں کرنے کے سبب ایڈمشن کے لیے والدین اپنے بچوں کےآن لائن ایڈمشن فارم ہی نہیں جمع کر پا رہے ہیں۔
امسال ایڈمشن کے لئے طلبہ کی عمر حکومت نے چھ برس مقرر کی ہے گزشتہ برس یہ حد چھ سال سے کم تھی۔
حق تعلیم قانون 2009 کے تحت 6 سے 14 برس کے گروپ کے ہر بچے کو مفت ابتدائی تعلیم فراہم کرنا لازمی ہے اور یہ سب بچوں کا بنیادی حق ہے- اسی قانون کے تحت پرائیویٹ اسکولوں میں 20 فیصد نشستیں معاشرے کے محروم اور کمزور طبقے کے بچوں کے لئے مختص کیا گیا ہے- محروم طبقے کے تحت شیڈولڈ کاسٹ اور درج فہرست قبائل کمیونٹیز کے اسٹوڈنٹس اس سہولت پانے کے اہل ہیں جبکہ، کمزور طبقے میں دیگر پسماندہ طبقات ، اقلیتی فرقے ، وی جے این ٹی اور ڈیٹی سے متعلق کمیونٹی کے لوگ، جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے سے کم ہے اور تمام مذہب اور ذات کے معذور بچے اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔