اورنگ آباد شہر میں ضرورتمند اور مستحق افراد کی بھوک مٹانے کے لیے 'نیکی کی ٹوکری' کے نام سےانوکھی پہل کی گئی ہے جو اپنے آپ میں منفرد ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران خدمت خلق کی خبروں نے بڑی سرخیاں بٹوری لیکن اب جبکہ حالات نارمل ہورہے ہیں تو ایسے حالات میں روزگار سے محروم لوگ کہاں جائیں؟ کس کے آگے ہاتھ پھیلائیں؟ اور کون انہیں دو وقت کی روٹی دے گا؟
انہی تمام باتوں کو ملحوظ رکھ کر اورنگ آباد کے کچھ اہل خیر حضرات نے 'نیکی کی ٹوکری' عنوان سے مستحق لوگوں تک غذا پہنچانے کی کوشش شروع کی ہے۔
اورنگ آباد میں سب سے پہلے کٹ کٹ گیٹ پر یہ تجربہ کیا گیا جس کو دیکھتے ہوئے دوسرے علاقوں میں بھی اس پر عمل ہورہا ہے، 'نیکی کی ٹوکری' کا رجحان کافی مقبول ہورہا ہے اہل خیر حضرات جو نان خریدنے آتے ہیں وہ کچھ اضافی نان خریدتے ہیں اور 'نیکی کی ٹوکری' میں ڈال دیتے ہیں جبکہ ضرورت مند افراد بلا معاوضہ اپنی ضرورت کے لحاظ سے نان لے کر جاسکتے ہیں۔
یہ کام خالص انسانی خدمت کے جذبے سے کیا جارہا ہے، لوگ دور دراز مقامات سے اس نیکی کی ٹوکری کو دیکھنے پہنچ رہے ہیں اور اس میں اپنا حصہ بھی شامل کررہے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق ضروری نہیں کہ اس ٹوکری میں صرف نان ہی ڈالے جائیں، کوئی بھی چیز، جو مستحق افراد کی بھوک مٹاسکے وہ اس ٹوکری میں ڈالی جاسکتی ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کار خیر میں ذات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر لوگ حصہ لے رہے ہیں۔
بھوک ہر جاندار کا فطری تقاضہ ہے، انسان کی ساری محنت بنیادی طور پر بھوک مٹانے کے لیے ہوتی ہے لیکن جب ہم عالمی نقشے پر نظر ڈالتے ہیں تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی انسان بھوک سے پریشان ہے۔
گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں بھوک سے پریشان لوگوں کی تعداد آٹھ سو ملین سے زیادہ ہے ان میں سے بھارت کی 23 فیصد آبادی یعنی بیس کروڑ سے زیادہ لوگ پیٹ بھر کھانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
بھوک اور تغذیہ کے شکار 119 ممالک کی فہرست میں بھارت کا مقام 103 ہے، یہ اعداد و شمار کورونا وبا سے پہلے کے ہیں موجودہ حالات کتنے تباہ کن ہیں اس کا تصور ہی محال ہے۔