سقوط حیدرآباد، آزاد بھارت پر وہ بدنما داغ ہے جو کبھی صاف نہیں ہوسکتا۔ حیدرآباد ریاست کو انڈین یونین میں ضم کرنے کی آڑ میں جو قتل و غارت گری مچائی گئی تھی اس کا تصور بھی محال ہے۔ پنڈت سندر لال کی رپورٹ اس انسانی المیے کی شاہد ہے لیکن ملک کی آزادی کے 70 برس سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس رپورٹ پر کوئی بھی حکومت لب کشائی کرنا نہیں چاہتی۔
سقوط حیدرآباد یا پولیس ایکشن کو اس مرتبہ اخبارات کی زبانی سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کسی بھی تاریخی واقعہ یا سانحہ کی حقیقت جاننا ہو تو تاریخی حوالوں کا جاننا نہایت ضروری ہے۔ سقوط حیدرآباد کے معاملے میں درجن بھر کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن اسے ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ چنندہ کتابیں ہی دستیاب ہیں۔
اورنگ آباد کے نامور سماجی کارکن اور کتب فروش مرزا عبدالقیوم ندوی کے پاس سنہ 1910 سے لے کر 1948 تک کے اخبارات کا ذخیرہ ہے۔ ان اخبارات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں آصف جاہی حکومت اور انڈین یونین کے درمیان ٹکراؤ کو ہوا دینے میں اخبارات نے کلیدی رول ادا کیا چاہے وہ اردو اخبارات ہوں، مراٹھی ہوں یا دیگر زبانوں کے اخبارات۔
مرزا عبدالقیوم ندوی نے بتایا کہ اس دور کے اخبارات اشتعال انگیزی میں ایک دوسرے پر بازی لے جاتے نظر آتے ہیں۔
مؤرخین کا کہنا ہے کہ پولیس ایکشن کی آڑ میں ریاست حیدرآباد کے سرحدی اضلاع میں جو لوٹ مار اور قتل و غارت گری کی گئی تھی اس میں لاکھوں افراد تہہ تیغ کردیئے گئے تھے۔ حکومت ہند نے انضمام کے بعد اس انسانی سانحے کی جانچ کے لیے پنڈت سندر کمیشن بنایا تھا۔ پنڈت سندر لال نے اپنی رپورٹ میں ساری حقیقت کو بیان کردیا تھا لیکن اسے المیہ ہی کہا جائے گا کہ آزادی کی سات دہائیوں بعد بھی اس رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ اوراق آشکارہ ہوئے ہیں لیکن اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ آج بھی کیا جارہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اخبارات معاشرے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس بات پر اگر یقین کرلیا جائے تو سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہندو اور مسلمانوں کے بیچ کی خلیج کو آج بھی ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ مذہب کے نام پر نفرت کا کھیل اُس دور میں بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے بلکہ فرقہ پرست طاقتوں کے ذریعہ اس میں مزید شدت آگئی ہے۔