ممبئی: انصاف تک رسائی ایک بنیادی حق ہے اور اسے فریب یا موقع سے مشروط نہیں کیا جا سکتا، بامبے ہائی کورٹ نے جمعرات کو یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالتیں این آئی اے ایکٹ کے تحت لازمی 90 دن کی مدت کے بعد دائر اپیلوں میں تاخیر کے باوجود سماعت کر سکتی ہیں۔نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) ایکٹ کے سیکشن 21 (5) کے تحت، چیلنج کے 90 دن کی مدت ختم ہونے کے بعد کسی اپیل پر غور نہیں کیا جا سکتا۔دراصل این آئی اے کے ذریعہ گرفتار فضیل مرزا کی ضمانت عرضی 838 دنوں بعد دائر کی گئی تھی جس پر جسٹس ریوتی موہیتے دیرے اور گوری گوڈسے کی ڈویژن بنچ سماعت کررہی تھی۔ جس میں ہائی کورٹ نے ضمانت کی اپیل دائر کرنے میں 838 دن کی تاخیر کے باوجود کیس کو سماعت کیلئے قبول کیا گیا۔
مرزا نے ایک اپیل دائر کی تھی جس میں مارچ 2020 کے اس حکم کو چیلنج کیا گیا تھا جس میں ایک این آئی اے کی خصوصی عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں نوٹ کیا کہ این آئی اے ایکٹ کو دوسرے قوانین کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے اور اسے اپنے آپ میں مکمل ضابطہ نہیں کہا جا سکتا۔ بنچ نے این آئی اے کے متضاد موقف پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ہائی کورٹ نے نوٹ کیا کہ ملزم کی طرف سے دائر کی گئی اس درخواست میں ایجنسی نے کہا کہ تاخیر کو معاف نہیں کیا جا سکتا، لیکن دیگر ہائی کورٹس میں ایجنسی نے خود درخواستیں دائر کی ہیں جس میں اس کی طرف سے دائر اپیل میں تاخیر کی معافی مانگی گئی ہے۔
سماعت کے دوران بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ"این آئی اے، ایک مرکزی تفتیشی ایجنسی ہونے کے ناطے، اس کے حق میں یا خلاف، ایک ہی موقف اختیار کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ موقف اس کی ضروریات کے مطابق نہیں بدل سکتا۔ ہم مختلف ہائی کورٹوں کے سامنے این آئی اے کے متضاد موقف میں کوئی میرٹ یا وجہ دیکھنے سے قاصر ہیں۔" ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ ملزم کا اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق بھارت کے آئین کے آرٹیکل 21 سے منسلک ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ بے گناہی کا قیاس انسانی حق ہے اور مذکورہ اصول بھارت میں مجرمانہ فقہ کی بنیاد بناتا ہے۔ بے گناہی کا قیاس، آرٹیکل 21 کا ایک پہلو ہونے کے ناطے، یہی ملزم کے فائدے کو یقینی بناتا ہے،" ہائی کورٹ نے کہا کہ انصاف تک رسائی ایک بنیادی حق ہے اور اسے کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا، "بار بار، عدالتوں نے کہا ہے کہ 'انصاف تک رسائی'، ایک انمول انسانی حق ہےجسے ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔" بنچ نے کہا کہ آئین کے نافذ ہونے سے پہلے ہی بھارت میں، 'انصاف تک رسائی' کو عدالتوں نے ایک قیمتی حق کے طور پر تسلیم کیا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں:جنسی زیادتی کا شکار مدرسہ طالب علم کی پراسرار موت پر ممبئی ہائی کورٹ برہم
جسٹس ریوتی موہیتے دیرے اور گوری گوڈسے کی ڈویژن بنچ نے کہا"ایک ملزم کو تاخیر سے اپیل دائر کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔"ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ" پراسیکیوٹنگ ایجنسی کے دروازے بند کرنے سے بھی سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، کیونکہ این آئی اے ایکٹ کا تعلق بھارت کی قومی خودمختاری، سلامتی اور سالمیت، غیر ملکی ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور بین الاقوامی قوانین کے نفاذ کے لیے بنائے گئے جرائم کے تحت ہے۔ ، " ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر اس شق کو لازمی قرار دیا گیا، تو یہ انصاف کی دھجیاں اڑائے گا، یہاں تک کہ ایسے معاملات میں جہاں ملزم مقررہ مدت کے اندر، اپیل دائر نہ کرنے کے لیے 'معقول وجہ' ظاہر کرنے کے قابل ہو۔
ہائی کورٹ کی بنچ نے کہا کہ ، " بروقت اپیل دائر نہ کرنے کی وجوہات کئی ہو سکتی ہیں جیسے وکیل کو مقرر کرنے کے لیے ملزم کی مالی حالت، اپیل دائر کرنے کیلئے قانونی معلومات کا فقدان،خاندان کے افراد کے زریعہ ملزم کے لئے وکیل کا انتظام نہ کرنا۔ یا پھر خاندان میں کوئی فرد نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔ "عدالت نے نوٹ کیا کہ بھارت اور دنیا بھر کے تمام مہذب معاشروں میں انصاف تک رسائی کو زندگی کے حق کا ایک حص تسلیم کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ "حق اتنا بنیادی اور ناقابل تنسیخ ہے کہ حکمرانی کا کوئی بھی نظام اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔"