ادیبوں نے اپنی تحریروں سے جہاں حالات حاضرہ کی عکاسی کی وہیں معاشرے میں بڑھتی نفرت کو بھی بڑے سلیقے سے پیش کیا۔ معروف ادیب و ناول نگار نورالحسنین نے اس نشست کی صدارت کی۔
اس ادبی نشست میں غالب کو ان کے کلام کے آئینے میں سمجھنے کی کوشش کی گئی، تو وہیں ’’دودھ پاؤڈر‘‘ کے ذریعے کورونا سے لیکر بھوک مری تک کا نقشہ کھینچا گیا۔ اسی طرح گڑھے عنوان کے تحت شہر کی سڑکوں میں پڑھے گڑھوں کے نقصانات کو اجاگر کیا گیا۔
معروف اور کہنہ مشق ادیبوں کی سرپرستی میں ہوئی اس ادبی نشست میں نئے لکھنے والوں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر بکھیرے اور خوب داد وتحسین حاصل کیں، نامور ادیبوں کا کہنا ہیکہ ایسی تقریبات نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی میں کلیدی رول ادا کرتی ہیں۔
اورنگ آباد کے استاد شاعر جے پی سعید نے سنہ 1950 کی دہائی میں مطلع ادب کے نام سے ایک ادبی انجمن کی بنیاد رکھی تھی، ان کے فرزندان صدیقی برادران آج بھی اپنے والد کی ادبی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کلچر ہاوس میں فارسی میں لکھی بھگوت گیتا اور مہابھارت موجود
نور الحسین کا کہنا ہے کہ اسی وزیر منزل میں انھوں نے اپنا پہلا افسانہ ’’ کالے ہاتھ ‘‘ پڑھا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اورنگ آباد میں ادبی روایات کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔