لاک ڈاؤن کے سبب سارے کام کاج ٹھپ ہیں۔ بےروزگار مزدوروں کے سامنے روزی روٹی کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوسرا مرحلہ تو ان لوگوں نے نکال لیا، لیکن جب جلد روزگار ملنے کے آثار نظر نہیں آئے تو یہ لوگ اپنے گاؤں لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔
یہ لوگ پیدل، سائیکل، بائیک کے علاوہ جسے جو ذریعہ ملا وہ اس پر سوار ہوگیا۔ انہیں اس بات کا ذرا بھی اندیشہ نہیں کی جان جوکھم میں ڈال کر جس سفر پر وہ نکلے ہیں وہ کب پورا ہوگا۔
یہ لوگ اس بات سے بھی انجان ہیں کہ گھر لوٹنے کی قوائد میں وہ کیا کر رہے ہیں۔ صوبوں میں پھنسے یومیہ مزدوروں کو اپنے گاؤں گھر جلد سے جلد پہنچنے کی پڑی ہے۔
اس بے صبری میں کئی مزدور اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں، پھر بھی دوسرے مزدوروں نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔ لہذا جس کے پاس جو جمع پونجی تھی، اسے لے کر وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ چل پڑا۔
ان میں کسی کے پیروں میں چپل نہیں ہے تو کوئی کے بدن پر جو کپڑے پہنے ہیں وہیں اس کا سامان ہیں۔ کچھ مزدوروں کے ساتھ چھوٹے۔ چھوٹے بچے بھی ہیں۔ خواتین اپنے سر پر گھر کا سامان لے کر پیدل چلتی جا رہی ہیں انہیں اس بات کی بھی فکر نہیں ہے۔
کئی میلوں لمبے سفر کے دوران راستے میں انہیں کچھ کھانے پینے کو ملے گا بھی یا نہیں۔جہاں جو ذریعہ ملا اسی کے سہارے منزل کی طرف پہنچنے کے لئے قدم بڑھادیے۔ ان مزدوروں کا ایک ہی مقصد ہے کہ جیسے بھی ہو وہ اپنے منزل پر پہنچ جائیں۔
دارالحکومت بھوپال سے چند کلومیٹر دور ویدیشہ بائی پاس پر ان مزدوروں کے آنے کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں سے ہوتے ہوئے روزانہ سینکڑوں مزدور اترپردیش اور بہار جارہے ہیں، وہیں کچھ مدھیہ پردیش کے الگ۔ الگ اضلاع کی راہ پکڑتے ہیں۔
وہیں ان مزدوروں کی مدد کے لیے بھوپال کی کئی تنظیمیں سامنے آئی ہے، جس میں تبلیغی جماعت کے اراکین ان کے آنے جانے والوں کے کھانے پینے بچوں کے لئے دودھ اور دیگر اشیاء مہیا کرانے کے لیے زندہ محنت کر رہے ہیں۔